کیا آپ پرسیس کھمباتا کو جانتے ہیں؟


ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہمیں دخل در معقولات کا مرض ہے کہ نہیں، کہ اس قسم کی حرکت کرنے والے کو اگر یہ احساس ہوتا تو وہ کبھی بھی یوں نہ کرتا۔ تاہم، ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری بعض تحریریں ”دخل در منقولات“ ضرور ہو سکتی ہیں۔ اور اگر ہماری یہ تحریر چھپ جاتی ہے تو یہ ہم سب میں چھپنے والے کسی تیسرے مضمون سے متاثر ہو کر لکھی گئی تحریر شمار ہو سکتی ہے کہ ہمیں اس تحریر کی تحریک ہم سب کے میاں چنوں کے لکھاری عبدالستار صاحب کے ایک مضمون بہ عنوان ”عضو تناسل سے سوچنے والے لوگ“ سے ملی۔ اور اس کے عنوان کے لیے جناب ڈاکٹر خالد سہیل کے مضامین کے اسی قسم کے عنوانات سے۔

دراصل ہمیں یہ مضمون بلکہ اس کا عنوان پڑھتے ہوئے ہی ایک آں جہانی بھارتی اداکارہ پرسیس کھمباتا اور پھر ان کا قول زریں یاد آ گیا کہ وہ کہتی تھیں کہ، ”مرد ٹانگوں کے بیچ سے سوچتا ہے۔“ البتہ شاید وہ کچھ شرمیلی تھیں اس لیے یہ نہیں بتایا کہ، ”وہ سوچتا کیا ہے؟“

ان کا یہ قول بھارتی فلمی رسالوں میں پڑھا تھا، کہ کسی دور میں یہ پاکستان میں بھارتی فلموں جتنے ہی مقبول ہوا کرتے تھے۔ ان کا یہ قول ”کرسی نشین“ ہی نہیں بلکہ اب تو اس کے کئی کئی ”آسن“ بھی ہیں۔

Persis Khambatta, Indian model and actress

ان کا مجمل تعارف بھی ہو جائے :

مختصر طور پر کہیں تو، پرسیس کھمباتا ممبئی میں ایک متوسط پارسی خاندان میں پیدا ہوئیں تھیں۔ جب وہ دو سال کی تھیں تو ان کے والد نے ان کے خاندان کو چھوڑ دیا۔ ان کو زیادہ شہرت اس وقت ملی جب انہوں نے مشہور ٹی وی شو سٹار ٹریک کے ایک کردار کے لیے گنجا ہونا بخوشی قبول کر لیا تھا۔ بعد ازاں اس منصوبے کو فلم میں تبدیل کر دیا گیا۔

مجمل طور پر وہ ایک بھارتی ماڈل تھیں جو بعد میں بالی وڈ اور اور ہالی وڈ فلموں کی مقبول اداکارہ بنیں۔ پرسیس کھمباتا کا ماڈل سے ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ تک کا سفر خاصا متاثر کن اور حوصلہ افزا رہا۔

پرسیس کھمباتا نے ابھی نوعمری میں ہی قدم رکھا تھا کہ اسے صابن کے ایک برانڈ کے اشتہار کی پیشکش کی گئی۔ اس سے پہلے انہیں اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرسیس کھمباتا کو دوسری ماڈلز کے برعکس ماڈلنگ میں آنے کے لیے کچھ زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑی تھی۔ درحقیقت، وہ اس شعبے میں غیرمتوقع طور پر ہی آئیں۔ ایک پیشہ ور فوٹوگرافر کی طرف سے کلک کی گئی ان کی تصاویر نے ماڈلنگ میں ان کی قسمت پر مہر ثبت کردی۔

انہوں نے جلد ہی فیمینا مس انڈیا کا اعزاز حاصل کیا اور مس یونیورس مقابلے میں اپنے بھارت کی نمائندگی کی۔ کھمباتا کی ماڈلنگ نے اداکاری میں ان کے کیریئر کی راہ ہموار کی۔ اگرچہ انہوں نے ایک بالی ووڈ اداکار کے طور پر اداکاری کی شروعات کی تھی، لیکن اس وقت ہندی فلم انڈسٹری میں موجود غیر پیشہ ورانہ پن نے انہیں ہالی ووڈ میں پروجیکٹس شروع کرنے پر مجبور کیا۔ ان کی بڑی کامیابی ’اسٹار ٹریک‘ فلم میں ان کے گنجے روپ کے ساتھ آمد تھی۔

اس سے انہیں عالمی شہرت اور شناخت حاصل کرنے میں مدد ملی۔ اگرچہ کھمباتا نے عام طور پر ہندوستانی شہریوں کے شہری احساس اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی کو حقیر سمجھا، لیکن وہ ممبئی واپس آ گئیں کیونکہ وہ اس شہر سے پیار کرتی تھیں۔ واپس آنے کے بعد ، انہوں نے ”پرائیڈ آف نیشن“ نامی کتاب لکھی، جس میں سابق مس انڈیا اور دیگر حسن کے مقابلوں کے بارے میں معلومات مہیا کی گئی تھی۔ انہوں نے یہ کتاب مدر ٹریسا کو انتساب کی گئی تھی، اور رائلٹی کا کچھ حصہ مشنریز آف چیریٹی کو عطیہ کیا گیا تھا۔

1983 میں، کھمباتا کی کورونری بائے پاس سرجری ہوئی۔ 1998 میں، کھمباتا کو سینے میں درد کی شکایت پر، جنوبی ممبئی کے میرین ہسپتال لے جایا گیا، اور 18 اگست 1998 کو 49 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں۔ آخری رسومات ممبئی میں ادا کی گئیں۔

اب آتے ہیں عضو تناسل سے سوچنے کی بات پرتو ہم تو یوں سمجھتے ہیں کہ ہر دور میں عضو تناسل سے سوچا ہی نہیں بلکہ لکھا بھی جاتا رہا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ سوچنے کی حد اور اس سوچ کو اپنے تک محدود رکھنے تک تو اس قسم کی بات برداشت کی جا سکتی ہے لیکن نوبت دوسروں کو نوچنے تک پہنچ جائے تو یہ گناہ سے جرم بن جاتی ہے۔ اور پھر یہ معاملہ خدا اور بندے کے بیچ کا رہنے کے بجائے بندے اور بندے کا یا قانون اور انصاف کا بن جاتا ہے۔

البتہ اس قسم کی سوچ کو مولوی حضرات تک محدود کر دینا دیگر گروہوں اور طبقات کو صنف مردانہ سے خارج کرنے کے مترادف بھی ہو سکتا ہے۔

عبدالستار صاحب نے ان واقعات کا بھی حوالہ دیا ہے کہ جن میں اشرف المخلوقات نے حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتے بلیوں تک کو نہیں چھوڑا۔

شہلا شفیق جو کہ ایک ایرانی مصنفہ اور محقق ہیں وہ اپنے ایک مضمون بہ عنوان ”عورت، تشدد اور طاقت۔ اور محبت“ میں لکھتی ہیں : ”عورتیں بیوی، ماں اور بہن یا بیٹی کی حیثیت سے محبت اور احترام کے لائق سمجھی جاتی ہیں۔ کہیں کہیں محبوبہ یا معشوقہ کے طور پر بھی۔ لیکن جب بھی وہ ان حدود سے آگے بڑھ کر اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو مشکوک، خود غرض، خطرناک، دیوانی اور فتنہ پرست کہلاتی ہیں۔“

وہ مزید کہتی ہیں، ”بات تشدد اور نفرت کی ہو تو صنفی بنیاد پر تشدد پر غور کرنے سے گہرا تضاد سامنے آتا ہے۔ کیونکہ اس تشدد کو جنم دینے والے رسم و رواج اور قوانین کو جائز اور جائز قرار دینے اور اس کے دائمی ہونے کو یقینی بنانے میں بہت سے معاملات میں پیار و محبت بھی شامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، غیرت کے نام پر قتل، خواتین کا ختنہ کرانا، اور جبری شادی جو عصمت دری کو قانونی تحفظ دیتی ہے۔ ہم ایک باپ، ماں اور بیوی کی محبت اور پیار کی بات کر رہے ہیں۔

لیکن ان تین پرتشدد مظاہر کی جڑیں ایک ساتھ ملتی ہیں : خاندانی رازداری اور استحکام کو برقرار رکھنے کے نام پر خواتین پر غلبہ حاصل کرنے اور ان کے جسموں اور روحوں پر قبضہ کرنے کی خواہش۔ اس میں لڑکی اور عورت کی جان اور جہان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ وہ آدمی کی ملکیت ہے۔ اور معاشرے کی ثقافتی اور سماجی صورت حال پر منحصر ہے، کبھی یہ ایک بار سر ہوتی ہے اور کبھی خاندان، قبیلے اور معاشرے کا سرمایہ۔ عورت کا جسم، اس کی ساری زندگی کی طرح، ایک گروہ اور آبادی سے تعلق رکھتا ہے جس کی سربراہی مرد کرتے ہیں : باپ، بھائی، چچا وغیرہ سے لے کر تمام ہم قبیلہ اور ہم محلہ اور“ ہم نوالہ و پیالہ ”وغیرہ تک۔“

ہم سمجھتے ہیں کہ عورتیں بھی انسان کی بچی ہیں اور جہاں تک ہماری ناقص معلومات ہیں وہ بھی اسی عمل یا پھر حمل سے پیدا ہوتی ہیں جس سے مرد پیدا ہوتا ہے اور ان میں بھی فطری طور چاہے جانے اور اپنائے جانے کی خواہش موجود ہے۔ مردوں کی طرح وہ بھی روبوٹ نہیں لیکن بہرحال ان کو خود پر مردوں سے زیادہ ضبط ہے۔ یہ ضبط کبھی بھی خوبی نہ ہوتا اگر خواتین بھی انہی فطری خواہشات اور رجحانات کی حامل نہ ہوتیں۔ لیکن ہم یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ مردوں میں یہ نظم کیوں نہیں اور یہ کہ اس کا مرد میں پیدا ہونا یا کرنا کیا والدین کی ذمہ داری نہیں؟

اور اگر عورتیں ماں، بیوی، بیٹی اور بہن اور کہیں کہیں محبوبہ کی حیثیت سے تو بڑے مرتبے پر فائز ہیں لیکن بطور عورت ان کا احترام کیوں نہیں؟ اور یہی سوال مردوں کے حوالے سے بھی کہ ہم باپ، بھائی اور بیٹے وغیرہ کے علاوہ بطور مرد کب معتبر بن سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments