مقامی حکومتوں کا نظام اور حکومتی ترجیحات


پاکستان کی سیاست اور جمہوریت سے جڑے نظام میں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی، خود مختاری اور ایک مربوط طرز کا نظام جو ہماری سیاسی، قانونی اور انتظامی ضرورت کو پورا کرتا ہو بہت کمزور نظر آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں ہمیں جہاں جمہوریت کمزور نظر آتی ہے وہیں مقامی حکومتوں کا نظام جو ہماری سیاسی اور آئینی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے اس کے بھی کئی سطحوں پر کمزوری کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں جو جمہوریت کے نام پر اقتدار کا حصہ بنتی ہیں وہ اسی مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک بنیادی سوچ اور فکر ہے کہ اگر کسی بھی ریاست یا حکومتی نظام میں مقامی نظام حکومت موجود نہیں تو پھر یہ نظام مکمل جمہوری نظام کی نفی کرتا ہے۔ اس وقت بھی ملک کے چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کا نظام کی عدم موجودگی عملی طور پر ملک میں حکمرانی کے بحران کی سنگین مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔

لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کے مقابلے میں ہمیں عدالتی محاذ پر یا الیکشن کمیشن کی سطح پر اس نظام کی اہمیت یا ان کے انتخابات کے حوالے سے کافی گرم جوشی یا فعالیت کا کردار نظر آتا ہے۔ اس وقت چاروں صوبائی حکومتوں پر ان ہی دو بڑے اداروں کا دباؤ ہے کہ وہ صوبہ جلد از جلد اپنے صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے عمل کو یقینی بنائیں۔ عدالتوں یا الیکشن کمیشن کی جانب سے عملی طور پر محض صوبوں کو تجویز ہی نہیں دی جا رہی بلکہ ان سے تواتر کے ساتھ رابطہ کاری، انتخابی شیڈول کے اجرا اور انتخابی طریقہ کار پر فیصلوں کا عمل سامنے آ رہا ہے۔

خیبر پختونخوا میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کا عمل اور عدالت کی جانب سے صوبائی حکومت کو غیر جماعتی انتخابات کے مقابلے میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اسی طرح سے سندھ پنجاب اور بلوچستان سمیت اسلام آباد میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کو یقینی بنا کر اپنا اپنا انتخابی شیڈول کو جاری کریں۔ حالانکہ سندھ کا موقف تھا کہ وہ یہ انتخابات نئی مردم شماری کے بعد کرے گا، مگر اب اسے اپنے فیصلے پر عملاً نظرثانی کرنا پڑ رہی ہے۔ پنجاب نے نئے برس مارچ اور اپریل میں نئے انتخابات کا عندیہ دیا ہے۔ جبکہ بلوچستان بھی نئے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔

یہ حالات اور عدلیہ سمیت الیکشن کمیشن کے کردار سے بظاہر لگتا ہے کہ نئے برس 2022 میں ہمیں چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا عمل دیکھنے کو ملے گا جو نچلی سطح پر جمہوری عمل کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نیا مقامی نظام حکومت کو تشکیل دیا گیا ہے۔ جبکہ سندھ میں بھی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ نیا نظام سامنے آ گیا ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کے مقامی سطح پر ہونے والے مقامی انتخابات میں میئر یا چیرمین کے انتخابات کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار براہ راست کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو ماضی کے نظاموں سے کافی مختلف بھی ہے اور دلچسپ بھی۔

یہ مقابلے کیونکہ سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر ہوں گے اس لیے یہاں ایک بڑے سیاسی دنگل بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ البتہ اہم بات ہے یہ کہ ہمیں اس بات کا بھی تجزیہ کرنا ہو گا کہ جو نئے نظام تشکیل دیے گئے ہیں یا سندھ اور بلوچستان میں جو پرانے نظام کے تحت انتخابات ہوں گے وہ کس حد تک 1973 کے دستور کی شق 140۔ Aاور 32 کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ کیونکہ آئین پاکستان میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ جو بھی مقامی حکومتوں کا نظام تشکیل دیا جائے گا اس میں ان ہی آئینی شقوں کی بنیاد پر اس نظام کو نہ صرف حکومتی نظام میں تیسری حکومت بلکہ ان حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری بھی دی جائے گی۔ لیکن بدقسمتی سے ہم آئین کی پاسداری کے مقابلے میں ایک ایسے نظام کو لانا چاہتے ہیں جو صوبائی حکومتوں کے کنٹرول کو یقینی بناتا ہے جو عملی طور پر آئین میں کی گئی 18 ترمیم کی روح کے بھی منافی ہے۔

پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت اصل میں معاشرے کے محروم طبقات یا کمزور افراد کو حکمرانی کے نظام میں شامل کر کے ان کو فیصلہ سازی کا حصہ بنانا ہوتا ہے۔ ان محروم طبقات میں عورتیں، کسان، مزدور، اقلیتیں، نوجوان شامل ہوتے ہیں اور آئین کی شق 32 ان ہی طبقوں کو مضبوط بنانے کی بات کرتا ہے۔ سول سوسائٹی کا ایک معروف ادارہ بیداری جو سیالکوٹ سمیت پنجاب کے کچھ اضلاع میں مقامی حکومتوں کے نظام اور بالخصوص محروم طبقات کی بھرپور شمولیت اور فعالیت پر کام کرتا ہے۔

اس ادارہ کے سربراہ پروفیسر ارشد مرزا نہ صرف اس نظام کے بارے میں سیاسی و سماجی شعور کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ عورتوں سمیت مختلف طبقات کی مقامی نظام میں شمولیت اور تربیت کے عمل میں بڑا فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے بقول مقامی حکومتوں کا نظام جہاں بہت سے طبقات اور جمہوری عمل کو فائدہ دیتا ہے وہیں سب سے زیادہ فائدہ معاشرے کے محروم اور کمزور طبقات کو ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام ہی کمزور طبقات کو مقامی فیصلہ سازی اور ان کی ترقی سے جڑے مسائل اور معاملات کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں اسی ادارے نے مختلف نوعیت کی تحقیق پر مبنی رپورٹس بھی جاری کی ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ حکمرانی کے نظام کی شفافیت ہی عام اور محروم یا کمزور طبقات کو ترقی کے قومی دھارے میں لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی ادارے کی تحقیق کے مطابق ان محروم طبقات کی نمائندگی کو محض مصنوعی بنیادوں پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کو نمائندگی کے ساتھ ساتھ نظام میں ان کا موثر کردار مقامی حکومتوں کے آئین میں واضح اور شفاف ہونا چاہیے جو ان کی موثر نمائندگی کو ممکن بنا سکے۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مقامی حکومتوں کے نظام کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کے تعین کا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں عمومی طور پر جمہوریت اور مقامی حکومتوں پر زور دیتی ہیں لیکن ان کا سیاسی مقدمہ مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کے لیے کافی کمزور بھی ہے اور ان کی عدم دلچسپی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل کے لیے تمام سیاسی قوتوں، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے ایک بڑے مشاق مقامی حکومت درکار ہے۔ کیونکہ جب تک سیاسی جماعتوں کی سطح پر اس نظام کو تسلسل سے چلانے اور اسے مضبوط بنانے پر اتفاق پیدا نہیں ہو گا تو عملی اقدامات ممکن نہیں ہوں گے ۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اصل اہم مسئلہ اس نظام کو چاروں صوبوں میں آئینی، انتظامی اور مالی خود مختاری دینی ہوگی۔

اصل میں جو لوگ بھی ملک میں مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کے حامی ہیں ان کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ نظام کوئی پرانی سوچ اور فکر سمیت پرانے روایتی طور طریقوں سے ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں دنیا میں مقامی حکومتوں کے تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا اور بہت سے بڑے فیصلے کرتے وقت کڑوی گولیاں ہضم کرنا ہوں گی ۔ کیونکہ جو لوگ بھی اس ملک میں روایتی سیاست کے حامی ہیں اور جو اختیارات کو زیادہ سے زیادہ صوبوں یا اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی عدم مرکزیت پر مبنی نظام کی حمایت نہیں کریں گے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس نظام میں جہاں اور بہت سی رکاوٹیں ہیں وہیں ایک بڑی رکاوٹ صوبائی حکومتوں کا نظام بھی ہے۔ کیونکہ صوبائی حکومتیں زیادہ سے زیاد اختیارات کو اپنی حد تک محدود کر کے نظام کو چلانا چاہتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس نظام کی مضبوطی اور تسلسل میں ہمیں صوبائی حکومتوں کا کمزور کردار نظر آتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے ریاستی نظام سمیت صوبائی حکومتوں پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو مضبوط بنانا ہو گا اور ان کو اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ وہ اپنی سیاسی توجہ کا مرکز مقامی حکومتوں کے نظام کو دیں۔ کیونکہ یہ ہی مقامی حکومتوں کا نظام ملک میں شفاف حکمرانی اور عام آدمی کی سیاسی طاقت بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments