بلوچستان کا منھ تو پہلے ہی بند ہے


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

ویسے تو اس حکم نامے پر گورنر بلوچستان نے یکم نومبر کو دستخط کر دیے تھے مگر مفادِ عامہ میں کرمنل لا ترمیمی آرڈیننس کا گزٹ نوٹیفکیشن کل (سنیچر) کو جاری کیا گیا تاکہ ہر خاص و عام کو خبر ہو جائے کہ اب سے بلوچستان کے کسی کوچے، گلی، سڑک یا قومی شاہراہ پر جلوس، مظاہرہ، دھرنا یا جبراً راستہ روکنا یا بند کرنا قابلِ تعزیر جرم ہو گا اور مجرم کو تین سے چھ ماہ قید اور دس ہزار روپے جرمانے تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس ترمیمی آرڈیننس پر اس گورنر (ظہور آغا) کے دستخط ہیں جن کی جماعت تحریکِ انصاف کو آج بھی اسلام آباد کے 126 دن کے سرکار مفلوج دھرنے پر فخر ہے۔

یہ نوٹیفکیشن گوادر میں کئی ہفتوں سے جاری شہری دھرنے کے متعدد مطالبات تسلیم کرنے کے اعلان اور اس سلسلے میں دھرنے کی قیادت سے مبینہ سمجھوتے کے فوراً بعد مشتہر کیا گیا۔

گوادر دھرنے میں شریک ہزاروں مقامی افراد کے تین بنیادی مطالبے ہیں۔ شہر میں صاف پانی کی شدید قلت دور کی جائے، مقامی ماہی گیروں کو روزگاری تحفظ دینے کے لیے سمندر تک رسائی بلا روک ٹوک ہو اور غیر قانونی ماہی گیری کو لگام دی جائے۔

یہ نوٹیفکیشن تب سامنے آیا جب کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے صدر دروازے پر کئی دنوں سے جاری طلبا دھرنے کو سرکاری یقین دہانی کرائی گئی کہ یونیورسٹی ہاسٹل سے جبراً لاپتہ کیے جانے والے دو طلبا کی بازیابی کے لیے 15 دن کے اندر ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے لہذا دھرنا برخواست کر دیا جائے۔

نا گوادر کے شہریوں کا دھرنا مسلح تھا اور نہ ہی بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دینے والے طلبا نقاب پوش ڈنڈہ بردار تھے۔نہ گوادر میں شہریوں نے تخریب کاری کی اور نہ ہی کوئٹہ کے طلبا کے بارے میں ایسی کوئی اشتعال انگیز خبر سامنے آئی۔ مگر نوٹیفکیشن میں پرامن احتجاج کے آئینی حق اور مسلح یا تخریبی ریلی میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا۔

گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے لیے ایسے قوانین کا نوآبادیاتی دور یا فوجی آمریت کے زمانے میں لاگو کیا جانا تو سمجھ میں آ سکتا ہے۔ مگر حکومتِ بلوچستان پر تو ’خالص منتخب جمہوری سویلین‘ حکومت کا سٹیکر چپکا ہوا ہے۔

جو افراد یا گروہ ریاست، آئین اور جمہوری ڈھانچے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں یا ان کا عملاً مذاق اڑاتے ہیں ان کو تو ریاست وعدہِ وفاداری کے عوض تحریراً سات خون معاف کر کے گلے لگانے پر بھی آمادہ ہے۔ لیکن جو مخلوقِ خدا نہ مسلح ہے، نہ علیحدگی پسند ہے، نہ دھشت گردی کی تعریف پر پوری اترتی ہے اسے بطورِ انعام نوآبادیاتی دور کے مردہ قوانین زندہ کر کے تھما دیے جاتے ہیں۔

دو رخی پالیسی، دو چہرے، دو نظام، دو طبقات، دو آئینی و قانونی تشریحات اور ایک ہی طرح کی صورتِ حال پر دو موقف انفرادی معاملات میں تو چل جاتے ہیں۔ لیکن ریاست یا ریاستی یونٹ بھی ایسی بدنیتی پر اتر آئیں تو پہلی ہلاکت ریاست اور اس کے اداروں پر عام اعتماد کی ہوتی ہے۔

عمومی اعتماد کی تنزلی اور ریاستی رٹ کی کمزوری دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جب ریاست بھی بنیادی حقوق و فرائض کے وظیفے کو طاقت کے نسخے سے نتھی کر دے تو پھر اس میں اور لاقانونیت پر یقین رکھنے والے گروہ میں فرق کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔

اور پھر یہ پیغام نیچے تک پھیلتا چلا جاتا ہے کہ جائز مطالبات کو تسلیم کروانے کا راستہ بھی لاٹھی ڈنڈہ بندوق تھامے بغیر نہیں کھل سکتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جو ٹیکس نہیں دیتے وہ تو دندناتے گھومتے ہیں اور جو ٹیکس دیتے ہیں انھیں گدھا فرض کر کے کمر پر مزید ٹیکس لاد دیے جاتے ہیں۔

بلوچستان سے دہشت گردی کی خبر نہ آئے تو قومی میڈیا ویسے بھی اس صوبے کو گھاس نہیں ڈالتا۔ اگر پرامن مظاہروں اور دھرنوں پر سزا کی دھمکی اور میڈیا بلیک آؤٹ سے بلوچستان میں امن و امان اور احساسِ محرومی بہتر ہو سکتا ہے تو پھر ہم سب کو تازہ کرمنل لا ترمیمی آرڈیننس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔

لیکن یہ اہداف حاصل نہیں ہوتے اور دراصل آواز اور منھ بند کرنے کی خواہش کو آرڈیننس کا ٹوپا پہنا کر نافذ کرنے کی نیت ہے تو پھر ریاست بیزار شہریوں کی شکل میں نیا خام مال ملنے کے امکان پر انتہا پسند عناصر کا خوش ہونا بنتا ہے۔

عاقلانہ اور عاجلانہ قوانین میں فرق اور مطلب کسی بھی عام سے پڑھے لکھے کی سمجھ میں آ سکتا ہے مگر سرکاری لال بھجکڑوں کو یہ فرق سمجھانا محال ہے۔ ممکن ہوتا تو لال بھجکڑ کیوں کہلاتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments