ناسٹلجیا: شمس الرحمٰن فاروقی


سمہ سٹہ ایک چھوٹا سا قصبہ جہاں سے کبھی ریل گاڑی کے ذریعے کراچی اور دہلی کے درمیان رابطہ رہتا تھا، تھوڑی تھوڑی دیر بعد ریلوے اسٹیم انجن کی مدھر اور رومانٹک سیٹی کی آواز سے گونجتا رہتا تھا۔ قریب کے بڑے شہر بہا ول پور میں ماڈل ٹاؤن اور کئی ایسے ٹاؤنز تھے جہاں گھروں کے باہر چھوٹی چھوٹی دیواریں ہوتیں تھیں۔ لوگ برآمدے یا لان میں بیٹھے سہ پہر کی چائے پی رہے ہوتے اور باہر سے گزرنے والوں کو نظر آ رہے ہوتے۔

مسجد کو تالہ لگانے کا تصور ہی نہیں تھا۔ کوئی تھکا ہارا مسافر گزرتا، کہیں سونے کو جگہ نہ ملتی تو مسجد کا بیرونی دروازہ کھول کے اندر آ کے سو جاتا۔ لوگ مسجدوں میں سونے والے مسافروں کو کھانا بھی دے دیتے۔ رات گئے لوگوں کے گھروں کے دروازے کھلے رہتے، چوری چکاری کا کوئی ڈر ہی نہ تھا۔ پھر ایک سپر پاور ملک کو خیال آیا کہ اس سے پہلے کہ مخالف سپر پاور ملک اپنے معاشی مفادات کے لیے گرم پانیوں کو عبور کر کے عرب اور افریقی خطوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرے کسی طرح اسے فوجی زک پہنچا کے اسے معاشی طور پہ کمزور کر دیا جائے۔

بس پھر اس سپر پاور ملک نے اپنے استاد برطانیہ کی پرانی پالیسی کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے مذہبی قوتوں کو اپنی پراکسی وار میں استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سپر پاور ملک کا مستقل طریقہ کار تو شروع سے ہی یہی رہا تھا کہ تیسری دنیا بشمول ایشیا و افریقہ کی سول اور ملٹری لیڈر شپ کو درپردہ بیک وقت اپنا ایجنٹ بنائے رکھنا۔ اگر سویلین ایجنٹ کا کسی اسٹیج پہ جا کے دماغ خراب ہونے لگ جائے اور وہ خود کو عقل کل سمجھنے لگے تو پھر ملٹری لیڈر شپ میں موجود اپنے ایجنٹ کو آگے بڑھا کے سویلین ایجنٹ کی چھٹی کرا دینی۔

وہ جو صبح اور شام کو برتن اٹھا کے محلے کے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کے کھانا اکٹھا کرتے اور پھر کھا کے یہ سوچ کے سو جاتے کہ یہ دنیا تو کافروں کے عیش و آرام کے لیے بنائی گئی ہے، ہمارے لیے تو عیش کا بندوبست مرنے کے بعد کیا گیا ہے۔ اب ان لوگوں کے لیے سپر پاور سے آنے والے ڈالروں کی بارش ہو نے لگی۔ جو بمشکل پرانی سائیکل خرید سکتے تھے وہ لگژی گاڑیوں کے مالک بن گئے۔ رہائش فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہو گئی۔ تبدیلی کیا آئی۔

شہر کے کسی کونے میں چھپے ریڈ لائٹ ایریاز پورے شہر میں مذہب کے نفاذ کے نام پہ ہی پھیلا دیے گئے۔ شہروں میں جرائم پیشہ لوگ لا کے بسا دیے گئے۔ گھروں کی دیواریں اونچی کرنا پڑیں۔ مسجدوں کو تالے لگ گئے اور لوگ فرقوں کے نام پہ اپنے ہی قریبی رشتہ داروں سے نفرت کرنے لگ پڑے۔ ابھی تبدیلی کا یہ دور شروع ہی تھا۔ سمہ سٹہ کی ہی مسجد میں جمعہ نماز کے بعد سلام پڑھا گیا اور پھر ہمیں قرآن پاک پڑھانے والے ہمارے استاد نے دیگر بچوں کے علاوہ مجھے بھی کہا، ”ہاں بھئی، اکبر!

چلنا ہے پروفیسر صاحب کے گھر درود شریف پڑھنے“ ۔ درود شریف پڑھنے سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔ انسان اکیلا تھوڑا ہی پیدا ہوتا ہے، ساتھ ایک شیطان بھی تو مال و اولاد میں حصہ دار ہوتا ہے۔ گناہ انسان سے نہ ہو پھر تو وہ فرشتہ ہو گیا اور فرشتہ جیسی صفت انبیاء کے علاوہ کائنات کے کسی بھی انسان میں نہیں آ سکتی۔ چلو، درود پاک پڑھنے سے گناہ ہی بخشے جائیں گے۔ ساتھ پروفیسر صاحب کھانوں، فروٹس اور مٹھائیوں سے دستر خوان بھر دیتے تھے، ان میں بھی ہم بچوں کے لیے کشش تھی۔

”کھاوو، کھاوو جنتی طوطو۔ اے سارا کچھ تو اڈے واسطے ہے“ ۔ ریاست بہاول پور میں قرآن پاک پڑھنے والے بچوں کو جنتی طوطے کہا جاتا تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں بلوا کے برکت کے لیے قرآن پاک اور درود شریف پڑھواتے اور رنگ برنگے پکوانوں سے تواضع کرتے۔ اب ذرا رواج کم ہو گیا ہے۔ ہم بھی بڑے ہو گئے ہیں۔ اب چٹ پٹی مصالحہ دار چیزیں کھانے کے لیے شیخ ہونے کے باوجود اپنی جیب سے پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ خیر۔

سب لوگ کھجور کی گٹھلیوں پہ درود پاک پڑھ رہے ہیں اور کالج میں اردو کا مضمون پڑھانے والے ہمارے میزبان پروفیسر صاحب کسی مرزا غالب کے شعر پڑھے جا رہے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں، ”غالب اصل میں بہت بڑے ولی تھے بس ذرا تھوڑی سی شراب پی کے خود کو چھپا لیتے تھے۔“ ان دنوں مجھے بھی ولی بننے کا بہت شوق تھا۔

اب جماعت ششم کے طالب علم اکبر کو پروفیسر صاحب کی بات نے مخمصہ میں ڈال دیا کہ ولی بننے کے لیے تو ؟ خیر۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو میرا ایک دوست بھی ولی ہے۔ وہ جب بھی تھوڑی سی چسکی لگا لیتا ہے۔ چوک میں آ کے ”سسٹم“ کو گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے۔ کئی دفعہ سمجھایا، پگلے! وہ جو اسی دنیا میں زندگی کی ہر سہولت کو انجوائے کر رہے ہیں، وہ ”سسٹم“ کو برا بھلا کہنے کو توہین سمجھتے ہیں۔ جن معاشروں میں ہیرو ازم کو فروغ دیا جاتا ہے وہاں ’اسٹیٹس کو ‘ کی زندگی انجوائے کرنے والے ”ہیروز“ اور ”مقدس“ لوگ ہوتے ہیں اور ان ”مقدس“ لوگوں کے خلاف بولنا جرم ہوتا ہے۔

برسوں گزر گئے پھر پڑھا کہ ہمسایہ ملک کے شہر الٰہ آباد میں شمس الرحمٰن فاروقی نام کا ایک شخص غالب کی تفہیم کو بیان کرتا ہے۔ میر کے عشق میں مبتلا ہے۔ شب خون کے ذریعے جدیدیت کو فروغ دیتا پھرتا ہے۔ ادب کی باریکیوں کو جیسا وہ سمجھتا ہے کئی دوسرے نہیں سمجھ پاتے۔ 25 دسمبر 2020 کی بات ہے کمپیوٹر آن کیا تو فیس بک پہ آغا سلمان باقر صاحب کی پوسٹ ہی سب سے پہلے سامنے آئی جس میں انھوں نے فاروقی صاحب جیسے عظیم ادبی نابغے کی موت پہ اپنے غم کو ایسے بیان کرنے کی کوشش کی تھی جیسے ان کا کوئی خونی رشتہ ان سے جدا ہو گیا ہو۔

اس بلاگ کا مقصد شمس الرحمٰن فاروقی صاحب جیسے ادب کی دنیا کے پہاڑ پہ تنقید کر کے بونوں کی طرح اپنا قد کاٹھ اونچا کرنے کو کوشش یا توجہ چاہنا مقصود نہیں۔ فاروقی صاحب اردو ادب کا سرمایہ تھے۔ میرے دل میں ان کے لیے محبت اور احترام ہے۔ میں ان کے لیے دعا گو ہوں۔ لٹریچر کی دنیا میں حقیقی جمہوریت ہوتی ہے۔ لٹریچر آپ کو حق دیتا ہے آپ کسی کی بات سے اتفاق کریں یا اپنا اختلافی نقطہ نظر بیان کریں۔ میرے اس بلاگ کا مقصد ایک نقطہ کی جانب اردو ادب سے وابستہ دوستوں کی توجہ دلا کے پوچھنا ہے کہ کیا ادب صرف ذاتی لطف لینے کے لیے لکھا اور پڑھا جائے؟

انسانیت جس درد اور تکلیف سے کراہ رہی ہے وہ جائے بھاڑ میں، ہم نے تو بس شعر و فکشن کی رومانیت کے مزے لینے ہیں۔ فاروقی صاحب پہ مشرف عالم ذوقی صاحب کی تحریر پڑھی جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے آنے سے اب ادب عام آدمی کی زندگی سے نکل چکا ہے یعنی اب عام آدمی کو لٹریچر سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ذوقی صاحب کی اس بات سے اتفاق کیا جائے تو پھر سب دوستوں کو یہ بات بھی نوشتہ دیوار کی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ادب کا مسئلہ اب جدیدیت اور ترقی پسندوں کی جنگ نہیں رہا۔

ادب کو اب نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ فی الحال آئندہ کئی دہائیوں تک سوشلزم یا کمیونزم کے احیاء کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ سرمایہ داری انٹرنیٹ، فور جی، فائیو جی ٹیکنالوجی اور ٹویٹر فیس بک جیسے ہتھیاروں کے ساتھ گلوب لائیزیشن کی صورت میں پوری دنیا میں اپنا تسلط قائم کر چکی ہے لہذا ترقی پسند ادبی تحریک میں نئے سرے سے جان ڈالنا اتنا آسان کام نہیں ہو گا۔ حالیہ وبا اور لاک ڈاؤن کے نام پہ تباہ ہوتی معیشتیں جو منظر ترتیب دے رہی ہیں اس میں کروڑوں انسانوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے، ایسے میں انھیں کیا پڑی کہ ترقی پسندی، جدیدیت، رومانیت اور لا یعنیت کو سمجھتے پھریں۔

ادب کو آج کے دور میں جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ ہے مذہب کے نام پہ انتہا پسندی اور جنونیت کا عفریت۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے بڑے ملک کا درجہ رکھنا لیکن وہاں کیا ہو رہا ہے؟ وہاں اقتدار پہ مذہبی جنونیوں کا قبضہ ہے اور حکمران کے عہدہ پہ فائز زعفرانیت زدہ مذہبی جنونی اور اس کے چیلے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور اقلیتوں کو کہہ رہے ہیں کہ اس ملک کو چھوڑ کے دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر جاؤ۔ ان زعفرانی چوہوں کو پتہ ہونا چاہیے، اس بار ہجرت نہیں ہو گی۔

ان کے دیس میں اقلیتیں جہاں بیٹھی ہیں، اسی جگہ ایک نیا ملک وجود میں آ جائے گا۔ ادیب چونکہ صرف اپنے ہی دور میں نہیں جی رہا ہوتا وہ آنے والے دور پہ بھی اپنے وجدان کے ذریعے نظر رکھتا ہے۔ شعر و فکشن سے وابستہ دوستوں سے ایک سوال ہے کہ اگر زعفرانی جنونیے جنون میں آ کے جنگ چھیڑ دیتے یا ایٹم بم کا بٹن دبا دیتے ہیں تو کیا جواب میں ایٹم بم کا بٹن نہیں دبایا جائے گا؟ کیا یہ جنگ صرف جنوبی ایشیا تک ہی محدود رہے گی اور تیسری عالمی جنگ کا روپ نہیں دھارے گی؟

تو کیا ایسے میں ہمارا ادیب صرف مرزا غالب اور جون ایلیا کا تقابل کرتا پھرے اور میر تقی میر اور میرا جی کی شاعری میں جنس کے مزے ڈھونڈتا پھرے۔ اگر انتہا پسندی انسانوں کو جنگ کا ایندھن بنانے پہ تلی ہوئی ہی ہے تو کیا ہوا، ادیب کی کوئی ذمہ داری تھوڑا ہے جو وہ اسے روکنے کے لیے نمرود کی جلائی آگ میں ایک چھوٹے پرندے کے برابر پانی کے چند قطرے ہی ڈال دے؟

آپ بس یہ تقابل کرتے پھریں کہ علامہ اقبال بڑے شاعر تھے یا میر تقی میر۔ مرزا غالب عظیم شاعر تھے یا فیض احمد فیض۔ ادب برائے ادب اور ادب برائے تفریح یا ادب برائے دل لگی تو لکھا جائے، ادب برائے امن کیوں نہیں لکھا جاتا؟ اگر کہا جائے کہ ایسا لگتا ہے کوئی سپر پاور ملک جنوبی ایشیا میں دو ممالک کے درمیان جنگ کرانے کی سازش کر رہا ہے اور جب جنگ شروع ہو جائے گی تو وہ امن کے نام پہ جنوبی ایشیا میں اپنی فورسز لینڈ کروا دے گا تو آپ کو حق ہے آپ اتفاق کریں یا اختلاف لیکن جس سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ آپ کے ثقافتی اور ادبی قلعے میں نقب لگا چکا ہے، اس کے تدارک کے لیے آپ نے کیا سوچا؟

شعر و فکشن میں محبوب کے زلف و رخسار سے آپ باہر نہیں آنا چاہتے تو نہ آئیں۔ ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگانے کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن انتہا پسندی کی آڑ میں جنونیت نئی جنگیں کروا کے انسانی خون بہانے کی جو سازش کر رہی ہے، کیا آپ اس کے خلاف اپنا کردار ادا نہیں کریں گے؟ شعر و فکشن کو ایک نئی سوچ ایک نئے جذبے سے ہمکنار نہیں کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments