’مسکرائیے، آپ ریاستِ مدینہ میں ہیں‘


عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی ملک سے عدم مساوات کے خاتمے کا عزم کر لیا تھا، موجود پاکستانی اسی عزم کی تصویر ہے۔

عمران خان نے اپنی سیاست کے آغاز پر ہی کہہ دیا تھا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نا انصافی اور عدمِ مساوات ہے۔ امیر مزید امیر ہوتا جارہا ہے اور غریب مزید غریب ہوتا جارہا ہے۔ امیر کے لیے قانون اور ہے غریب کے لیے اور ہے۔ اشرافیہ کا نصاب اور ہے غریب کا نصاب اور ہے۔ ہم تب تک انصاف والا معاشرہ قائم نہیں کرسکتے جب تک دولت کی تقسیم برابر نہیں ہوگی۔ ہم تب تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک قانون کی نظر میں امیر اور غریب ایک برابر نہیں ہوں گے۔ ہم تب تک ایک قوم نہیں بن سکتے جب تک امیر اور غریب کا نصاب ایک نہیں ہوگا۔

خدا کا بڑا کرم یہ ہوا کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار کی زمام عمران خان صاحب کے ہاتھ لگ گئی۔ ایسا نہ ہوتا تو رہتی دنیا تک پاکستان کی تباہی کی وجہ ایک ہی بتائی جاتی، عمران خان کو حکومت میں آنے نہیں دیا گیا۔اب چونکہ آچکے ہیں، تو اب محققین اور مورخین ہماری زبوں حالی کی ایک سے زیادہ وجوہات بہت سہولت کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں۔

صحافت کے تمام اشاریے بتارہے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر اس تیزی سے دوڑے جارہا ہے کہ ٹوپی چپل ریزگاری سب گرکے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ترقی کے جتنے پہلو ہیں، یہ تب تک سمجھ نہیں آئیں گے جب تک عمران خان صاحب کے ”ایک برابر‘‘ والے فلسفے کے تناظر میں کارکردگی کا جائزہ نہیں لیا جائے گا۔ اسی تناظر میں کل ایک صاحب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ کیا خان صاحب اپنے ”ایک برابر‘‘ والے نعرے پر پورا اترے ہیں؟ منٹ کے پہلے سیکنڈ سے بھی بہت پہلے میری ”ہاں‘‘ نکل گئی۔

میری اس ”ہاں‘‘ کے لیے دلیل مانگی گئی تو پہلی مثال صفائی اور امن و امان کے حوالے سے پیش کی۔ دیکھیے، پورے پاکستان میں ایک کراچی ہی ایسا شہر تھا جہاں گندگی والی عیاشی پائی جاتی تھی۔ ڈاکا ڈکیتی، چھینا جھپٹی، مارا ماری اور چوری چکاری والے مزے اس کے علاوہ تھے۔ لاہور اور اسلام آباد دو ایسے شہر تھے جو بہت زیادہ صفائی ستھرائی کی وجہ سے مسلسل بے رنگ ہوئے جارہے تھے۔ اسلام آباد میں تو سکون اتنا تھا کہ فیض کی طرح مرجانے کو جی چاہتا تھا۔کراچی والوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ کتے کے کاٹا ہوا تو پھر بھی بچ جاتا ہے، سکون کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔

خان صاحب کی حکومت آنے کے بعد شہروں کے بیچ کے یہ امتیازی فاصلے تیزی سے سمٹ گئے۔ اب لاہور میں بھی جابجا کچرے کے ڈھیر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جابجا گندگی کے ڈھیر بتا رہے ہوتے ہیں کہ لاہور میں بھی انسان ہی بستے ہیں۔اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس کے بالکل پیچھے کا میدان اب بڑے سے ایک کوڑے دان کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔ سُوروں کی بھاری کابینہ روز دوپہر کو یہاں اوپن ائیر بوفے کے مزے لے رہی ہوتی ہے۔ پہلے مارگلہ کے ٹریلز پر صفائی دیکھ کر وحشت سی ہوتی تھی۔ اب وہاں پانی کی خالی بوتلیں، چپس بسکٹ کے ریپر اور پھلوں کے چھلکے رونق بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ڈکیتیوں کی وارداتیں تو اِس حکومت کے ابتدائی نوے دنوں میں ہی شروع ہوگئی تھیں، اب مدت پوری ہونے کو آئی ہے تو موبائل چھیننے کی روایت بھی شروع ہوگئی ہے۔ اپوزیشن اگر حکومت کو سکون سے مدت پوری کرنے دے تو بڑی ڈکیتیوں کی ہفتہ وار وارداتوں کو روزانہ کا معمول بھی بنایا جاسکتا ہے۔ میرے کراچی کے ناراض دوست اکثر کہتے ہیں کہ پہلے تمہارا کراچی آنا جانا بہت رہا کرتا تھا اب تو پلٹ کر ہی نہیں دیکھتے؟ جانی پلٹ کر جزیرے دیکھوں جو ویسے ہی پڑے ہوئے ہیں؟ بیٹا وہ دن ہوا ہوئے جب دلاور فگار اکیلے پٹاخے پھوڑا کرتے تھے۔ فرصت ملے تو کبھی آکر دیکھنا، اسلام آباد اور کراچی ایک برابر ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں ہمیشہ سے ہی فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں رہنے والوں کو شکوہ ہوتا تھا کہ آئینی، قانونی اور ترقیاتی طور پر ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہمیں پختونخوا کے باقی علاقوں میں ضم کر کے ایک برابر کیا جائے۔ یہ تقاضا بہت بڑھا تو ایک دن فاٹا کو وفاق کے نیچے سے نکال کر پختونخوا میں ضم کردیا گیا۔ اب یہاں کے لوگ باقی علاقوں کے ساتھ کیسے ایک برابر ہوئے، ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں۔ فاٹا اور پاٹا کے لوگ ”ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور آرڈیننس‘‘ سے بہت پریشان رہا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آرڈینینس سیکیورٹی اداروں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جب چاہیں جیسے چاہیں اور جسے چاہیں اٹھاکر غائب کر دیں۔ پختونخوا میں خان صاحب والی حکومت نے پہلی بار فاٹا اور پاٹا کے لوگوں کے اس درد کو محسوس کیا۔ خان صاحب تو باقاعدہ تڑپ گئے کہ اتنے بڑے صوبے میں مٹھی بھر لوگ ہی زیادتیوں سے کیوں مستفید ہورہے ہیں۔ صوبائی مشینری فوری طور پر متحرک ہوئی اور پاٹا فاٹا ایکٹ کو پورے صوبے میں لاگو کردیا گیا۔ جس درد میں صرف ایک علاقے کے لوگ مبتلا تھے، اُس درد میں سارے صوبے کے لوگ ایک برابر ہوگئے۔ فاٹا کے لوگ اب جب صبح اٹھتے ہیں تو ہوائیں پہلے جھک کر سلام کرتی ہیں، پھر مسکرا کر پوچھتی ہیں، ہور کوئی حکم ساڈے لائق؟

یہی وارے یہاں نظامِ تعلیم کے بھی نیارے ہوئے ہیں۔ کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اچھی تعلیم صرف خوش حال گھرانوں کے بچے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اچھی انگریزی بولتے ہیں اور نئی دنیا کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ خان صاحب نے آتے ہی ایک قومی نصاب کا نعرہ لگا کر فرسودہ نظامِ تعلیم پر کاری ضرب لگادی۔ بہت بڑی سرمایہ کاری اور محنت کے بعد تعلیم کا ایک نصاب اور نظام تخلیق کرلیا گیا۔ بفضلِ خداوند، اس نظام کے تحت خوش حال گھرانوں والے معیاری نصاب کو بھی عام آدمی کے نصاب کی طرح غیر معیاری کر دیا گیا ہے۔ انگریزی زبان کی بجائے اردو زبان میں تعلیم لازم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی ہم جیتے جی وہ دن دیکھ پائیں گے کہ جب اس ملک کے خوش حال بچے بھی انگریزی میں کمزور اور معیار میں کم ہوا کریں گے۔ اگلی پود جب اس تعلیمی انقلاب کے بارے میں پوچھا کرے گی تو خوش حال شہری انہیں بتایا کریں گے کہ پتر لوگ ویسے ہی ایک برابر نہیں ہو جاتے، جائیداداں ویچنیاں پیندیاں نیں۔

ایک وقت تھا جب دوستوں کے کارخانے، گاڑیاں، بنگلے اور سیاحتیں دیکھ کر دِل چپلی کباب ہوجاتا تھا۔ مجھے فکر ہوتی تھی کہ یہ دوست کیوں دنیا میں اتنے مگن ہو گئے ہیں کہ ایک عام انسان کی طرح پرسکون درد والی زندگی نہیں گزار پا رہے۔ کب وہ دن آئے گا جب یہ لوگ اور ہم لوگ ایک برابر ہوں گے۔ کیا یہ دن دیکھنے کی آس میں ہم بوڑھے ہو جائیں گے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ ایسا تو تب ہوتا جب ملک میں بدعنوانوں کا راج ہوتا۔ آنکھیں کھولیے اور مسکرائیے، آپ ریاستِ مدینہ میں ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ میں نے چالیس کے پیٹے میں اترنے سے بھی پہلے اپنے خوش حال دوستوں کو دیوالیہ ہوتا ہوا دیکھ لیا۔ان کے کارخانے بند ہوگئے اور گاڑیوں کی تعداد کم ہوگئی۔ بچوں کو معیاری اسکولوں سے نکال کر ہماری اوقات والے اسکولوں میں ڈال دیا ہے۔ میری تو طبعیت جی اٹھی جب اپنے ایک دوست کی بیگم کو شرمندگی کے ساتھ اتوار بازار میں لُنڈے کا مال خریدتے ہوئے دیکھا۔ یہ جان کر بہت اطمینان ہوا کہ ہمارے ایک دوست نے بچوں کو اسکول ڈراپ کرنے کے لیے جو گاڑی رکھی تھی وہ بیچ دی ہے۔ ذاتی استعمال کی چار ہزار سی سی والی گاڑی بیچ کر اٹھارہ سو سی سی والی گاڑی لے لی ہے۔ میرے اور دوستوں کے بیچ کے زیادہ تر امتیازی فاصلے مٹ کر ایک برابر ہو گئے ہیں۔ جنتر منتر اسی رفتار سے چلتے رہے تو انشااللہ رہے فاصلے بھی اڑن چھو ہوجائیں گے۔

ابھی پچھلے ہفتے گلگت میں کچھ دوستوں کو یہ شکایت کرتا ہوا پایا کہ ہمارے ساتھ برابری کا سلوک نہیں ہو رہا۔ ایک ستم ظریف سے میں نے پوچھا کہ تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟ اس انگلیوں پہ گنوانا شروع کیا کہ دیکھیں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا کوئی آئین نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا کہ بس میرے بھائی بس۔ خدا کے لیے یہیں رک جاؤ، ایک لفظ بھی آگے مت بولنا۔ حیرت سے بولا، کیا ہوا سر؟ میں نے کہا، تمہاری یہ آواز اگر آگے پہنچ گئی تو ہمیں تمہیں ایک برابر کرنے کے لیے باقی کے پاکستان میں بھی آئین معطل کردیا جائے گا۔ بہتر ہوگا کہ پہلے ہم انقلاب کے ابتدائی حصے کو ٹھیک طرح سے ہضم کرلیں، پھر اگلے حصے کی طرف بڑھیں۔ ہمارے ہاضمے ٹراٹسکی والے نہیں ہیں جو مسلسل انقلاب کی تاب لاسکیں۔ ہمارے لیے لینن کا مرحلہ وار انقلاب ٹھیک رہے گا۔ پہلے دل کو عادی کرنا پڑتا ہے کہ وہ ٹھیک سے خون کے آنسو ہنس لے۔ پھر کہیں جا کے وہ وقت آتا ہے جب انسان بغیر کسی دقت کے زار و قطار ہنستا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments