سعد رضوی، پُتر ذرا دھیان سے

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


حکومت کے سر پر دھرنے کی دو نالی بندوق رکھ کر حال ہی میں کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہونے والے تحریک لبیک کے قائد سعد رضوی کے بارے میں ابھی تک ذرائع نے یہ نہیں بتایا کہ انھیں علامہ کہا جائے یا فی الحال مستقبل کا وزیر اعظم کہہ کر کام چلایا جائے۔

یہ بات اس لیے سوچنے کی ہے کہ پاکستان میں کالعدم تحریکیں یہ نعرہ لگایا کرتی ہیں کہ ’دم ہے تو کالعدم ہے۔‘

اب جو تحریک کالعدم ہو کر پھر غیر کالعدم ہوجائے اور کالعدم کرنے والے پھولوں کے گلدستے لے کر بچھ جائیں اُس تحریک میں اور اس کے قائد میں کتنا دم ہوگا۔

ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ علامہ خادم رضوی اپنے بیٹے سعد کا ذکر اپنے خطبات میں اُسی شفقت سے کرتے تھے جیسے اکثر باپ اپنی ہی لاڈ پیار سے بگڑی ہوئی اولاد کا کرتے ہیں۔

فرماتے تھے کہ میں نے اپنے بیٹے کو کسی سکول، کسی مدرسے نہیں بھیجا ساری تعلیم خود گھر میں دی۔ پھر جب سعد کو دین کی خدمت کے سلسلے میں پہلا کام ملا تو معاوضے کے ساتھ گھڑی، سوٹ اور نئے جوتے ملے تو علامہ نے جتایا کہ دیکھا بیٹا دین کی چوکیداری میں اجر ہی اجر ہے۔

سعد رضوی صاحب کو اپنے پہلے کام کے سلسلے میں گھڑی، سوٹ اور جوتے ملے ہوں گے لیکن والد کی وفات کے ایک سال کے اندر اندر، دو چار دفعہ جیل جانے سے، ڈھائی دھرنے دینے سے، فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا نعرہ لگانے سے انھیں پورا بریلوی ووٹ بینک تحفے میں دیا گیا ہے۔

ایسا پکا پکا ووٹ بینک تو مریم نواز یا بلاول بھٹو جیسے جدی پشتی سیاستدانوں کو بھی نہیں ملا ہوگا۔

ہمارے سازشی ذہن کہیں گے کہ سعد رضوی کے مستقبل کا فیصلہ نہ علامہ خادم رضوی کی تعلیم نے کیا نہ تحریک لبیک کے بزرگوں نے بلکہ چاند والے مفتی منیب، کراچی کے ایک سیٹھ اور سپہ سالار نے چائے کے کپ پر مشاورت کی اور کہا یہ ہمارا ہونہار لڑکا ایسے ہی جیل میں پڑا ہوا علامہ اقبال کی نظموں کو رٹا لگا رہا ہے یا بقول عمران خان کے ایسے ہی پڑا ہوا ہے، اسے نکالو اور پھر تماشا دیکھو۔

زیادہ سنجیدہ اور مدبر تجزیہ نگار فرمائیں گے کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں اتنے بڑے بریلوی فرقے کے جذبات کی ترجمانی کرنے والی کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی، اس لیے تحریک لبیک کا سیاسی ظہور ایک قدرتی امر تھا۔

یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ علامہ خادم رضوی کے ظہور سے پہلے بریلویوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ ان کے جذبات ہیں کیا (جس طرح انڈیا میں مودی کے ظہور سے پہلے ہمارے ہندو بھائیوں کو یہ پتا نہیں تھا کہ وہ تقریباً ایک ارب کی مظلوم اکثریت ہیں)۔

وہ تو بھلا ہو علامہ خادم رضوی کا جنھوں نے ہمیں بتایا کہ بھول جاؤ جماعتیوں کو اور جہادیوں کو کیونکہ تمھاری ہر گلی میں گستاخ گھوم رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان بھی سوچتے ہوں گے کہ اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر پوری دنیا کو مسلمانوں کے جذبات کے بارے میں انھوں نے بتایا، رحمتہ اللعالمین اتھارٹی انھوں نے بنائی اور اب یہ چھوٹا رضوی جیل سے چھوٹنے ہی اپنے جانثاروں کو بتا رہا ہے کہ اگلے الیکشن میں ووٹوں سے ڈبے بھرنے ہیں۔

علامہ خادم رضوی نے اپنے صاحبزادے کی تعلیم کے دوران پاکستان کے تمام اچھے استادوں کی طرح علامہ اقبال کی نظموں کو رٹا تو لگوایا ہوگا جن کا استعمال وہ اب اپنے خطبات میں کرتے ہیں۔

ہمیں علامہ صاحب کی شاگردی تو نصیب نہیں ہوئی لیکن علامہ اقبال کی کچھ نظمیں زبانی یاد کرا دی گئیں تھیں۔ ان میں سے ایک ہمارے حسب حال تھی اس لیے پہلا شعر آج تک یاد ہے:

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کيا تو نے

وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا

تعلیم کے دوران استادوں نے گردوں کا مطلب نہیں بتایا تھا۔ اب کچھ اندازہ ہے کہ یہ کوئی آفاقی چیز ہے جو حرکت میں رہتی ہے۔

علامہ رضوی نے اپنے ولی عہد کو یہ سب اچھی طرح سمجھا دیا ہوگا۔ یہ بھی بتایا ہوگا کہ یہ جو پھولوں کے گلدستے لے کر آتے ہیں اور تیرے ساتھ تصویر بنواتے ہیں، ان کے پھولوں کو اچھی طرح سونگھ لینا۔ یہ تیرے کان میں کہتے ہوں گے کہ ہمیں جو بھی کہنا ہو کہہ لینا گستاخ نہیں کہنا۔ اور یہ جب تجھے گلے لگائیں تو خیال رکھنا کہ یہ ایک ہاتھ تیری جیب میں ڈال کر تیرا ووٹ بینک چرانے کی کوشش کریں گے۔

علامہ خادم رضوی جیسی رنگین پنجابی میں بات کرنے کی ہمت نہیں ہے ورنہ وہ ولی عہد کو پیار سے کوئی اچھا سا لقب دے کر کہتے کہ یہ ڈبے بھرنے والی پٹی تجھے کس نے پڑھائی ہے اگلے الیکشن تو مشینوں پر ہوں گے۔

صرف ایک ولی عہد کی ہی نہیں پوری جمہوریت کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments