کرتارپور میں گرودوارہ دربار صاحب میں سر ڈھانپے بغیر ماڈلنگ کرنے پر شدید تنقید


پاکستان میں کرتارپور میں گرودوارہ دربار صاحب میں بظاہر پاکستانی ڈیزائنر ملبوسات کے اشتہار کی شوٹنگ کی تصاویر سامنے آنے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیا پر تنقید کی جا رہی ہے۔

یہاں ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ گرودوارے میں تصاویر لینا یا خواتین کا جانا ممنوع نہیں لیکن اس جگہ کے احترام میں سر ڈھانپ کر رکھنا ایک ضروری امر ہے جس کی مرد اور خواتین دونوں یکساں طور پر پابندی کرتے ہیں۔

انڈین صحافی رویندر سنگھ روبن نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور وزارت مذہبی امور کے آفیشیل اکاؤنٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے شکایت کی کہ ’گرودوارے کے صحن میں ایک لاہوری خاتون نے سر ڈھانپے بغیر خواتین کے ملبوسات کی ماڈلنگ کی ہے جس سے بہت سے سکھوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ نہ صرف شوٹ کیا گیا بلکہ اسے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا گیا۔

اس کے جواب میں پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے لکھا کہ ’ڈيزائنر اور ماڈل کو سکھ برادری سے معافی مانگنی چاہیے۔ کرتارپور صاحب ایک مذہبی جگہ ہے نہ کہ کسی فلم کا سیٹ۔‘

اس ردعمل کے بعد ’منت کلاتھنگ‘ نے اپنے اکاؤنٹ پر اس کی وضاحت دی ہے کہ انھوں نے نہ تو یہ شوٹ کروایا اور نہ وہ اس میں شامل ہیں جبکہ یہ تصاویر تیسرے فریق کی جانب سے آئیں تھی۔

اس کے باوجود انھوں نے غلطی کا اعتراف کیا کہ انھیں یہ تصاویر پوسٹ نہیں کرنی چاہیے تھیں اور اب انھوں نے وہ تصاویر ہٹا دی ہیں۔

شرومنی اکالی دل کے رہنما اور دلی سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر منجندر سنگھ سرسا نے ملبوسات کی شوٹنگ کرنے والی ماڈل کی تصاویر سامنے آنے کے بعد حکومت پاکستان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

منجندر سنگھ نے اس کے متعلق کئی ٹویٹ کیے اور لکھا کہ ’اس طرح کا سلوک اور عمل گرو نانک دیو کے مقام پر ناقابل قبول ہے۔ کیا وہ اس طرح کا کام اپنے مذہبی مقام پر پاکستان میں کر سکتی ہیں؟‘

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے حکومت پاکستان سے گزارش کی کہ اس کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی کی جائے۔

واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان میں اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونما ہوئے ہیں جن پر شدید رد عمل دیکھا گیا۔

لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد میں بھی شوٹ پر شور برپا ہوا تھا جبکہ مسجد وزیر خان میں ایک گانے کی شوٹنگ کرنے پر اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اسی طرح انڈیا میں بظاہر ایک مندر میں بوس و کنار کے ایک منظر پر او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلکس کے بائیکاٹ کی بات کہی گئی تھی۔

مستورہ حجازی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اسلام میں مذہبی مقامات کی بے حرمتی سختی کے ساتھ ممنوع ہے۔ اس خاتون اور جس برانڈ کی وہ تشہیر کر رہی ہیں اسے تعزیرات پاکستان کے تحت سزا دی جانی چاہیے۔‘

ایک صارف صہیب نہال نے لکھا کہ ’مجھے امید ہے کہ حکومت اس کا نوٹس لے گی۔ کسی کو بھی کسی کے مذہبی مقام کی بے حرمتی کی اجازت نہیں۔‘

پاکستان سے محمد اسامہ نے لکھا: ’یہ بہت زیادہ غیر مہذب ہے۔ تمام مذاہب کا احترام ضرروی ہے۔ ہم سکھ برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments