ایدھی فاؤنڈیشن کو ملنے والا لاوارث نوزائیدہ بچہ: ’بچے کے ہاتھ مڑے تھے، آنکھیں نظر نہیں آ رہی تھیں جبکہ جسم ایسے تھا جیسے جلا ہو یا کوئی بیماری ہو‘
ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ایدھی ایمبولیس کے ڈرائیور ذاکر بتاتے ہیں کہ قومی شاہراہ کے قریب واقع عائشہ ہسپتال کے نزدیک باگڑی کمیونٹی کی جگھیوں کے قریب جب وہ پہنچے تو بچہ ایک چارپائی پر موجود تھا اور اس کو کپڑوں میں لپیٹا ہوا تھا اور اس کی سانسیں چل رہی تھی۔
ایک خاتون نے بتایا کہ کچرے کے قریب وہ حاجت کے لیے گئیں تو وہاں انھیں بچے کے رونے کی آواز آئی اور جب قریب جا کر دیکھا تو ایک بچہ موجود تھا جس پر انھوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کو اطلاع دی۔
ذاکر گزشتہ نو برس سے ایمبولینس چلا رہے ہیں اور ایدھی سے قبل وہ چھیپا ایمبولینس کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچے تو ملتے ہیں لیکن اس حالت میں انھوں نے کبھی کوئی بچہ نہیں دیکھا۔
’ایسا بچہ پہلی بار اٹھایا، جس کے ہاتھ مڑے ہوئے تھے، آنکھیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ اس پر گوشت تھا جبکہ جسم ایسا لگتا تھا جیسے جلا ہوا ہو یا کوئی بیماری تھی۔‘
ذاکر اس بچے کو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ لے آئے جہاں اس کو داخل کر دیا گیا البتہ اس بچے کی اتوار کو وفات ہوگئی۔
’کزن میریج کا نتیجہ‘
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ناصر کا کہنا ہے کہ بچے کی جلد کو جلایا نہیں گیا تھا بلکہ وہ Autosomal Recessive Disorders کا شکار تھا، جس کی وجہ سے اس کی جلد اس حالت میں تھی اور وہ انفیکشن کا شکار ہو گیا تھا۔
ڈاکٹر اعجاز احمد جنجھی ایک نجی ہسپتال میں چائلڈ سپیشلسٹ ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ 20 سال کی پریکٹس میں انھوں نے ایسے چار سے پانچ کیسز دیکھے ہیں۔
’ان بچوں کے زندہ بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی جلد نارمل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے انھیں انفیکشن آسانی سے ہوجاتا ہے اور یہ کئی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
کوڑے دان کے قریب چھوڑا گیا لاوارث بچہ جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں کروڑ پتی بنا
’ایدھی بابا‘ اور لالو کھیت کا لاوارث بچہ
’شناخت پراجیکٹ‘: ’لاوارث‘ میتوں کو اُن کے اپنوں تک کیسے پہنچایا جا رہا ہے؟
ڈاکٹر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ تھیلسمیا کی طرح اس بیماری کی ایک بڑی وجہ بھی کزن میرج ہے کیونکہ خاندان میں ایک ہی خون موجود رہتا ہے جو ایک ہی قسم کے جینز کو جنم دیتا ہے۔
’بچوں کو کچرے میں نہ پھینکیں‘
پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن پہلا ادارہ ہے جس نے ملک بھر میں جھولے لگائے اور یہ پیغام عام کیا کہ بچوں کو پھینکنے کے بجائے ان جھولوں میں چھوڑ جائیں۔
کراچی سمیت کئی شہروں میں بیمار، معذور بچوں کو پھینکا جاتا ہے۔ ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے لیکر اکتوبر تک دس ماہ میں 178 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملی ہیں۔
بلقیس ایدھی کا کہنا ہے کہ ’ایسے معصوم بچوں کا بے دردی سے قتل نہ کریں، اگر پال اور سنبھال نہیں سکتے تو ہمارے جھولے میں ڈال دیں۔‘
- رضا ہاشم صفی الدین: پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے داماد کون ہیں اور ان پر اسرائیل کا الزام کیا ہے؟ - 22/05/2022
- بھنور لال جین: انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں ’مسلمان ہونے کے شبے میں‘ ذہنی بیماری کا شکار شخص کی ہلاکت کا واقعہ - 22/05/2022
- حبیبہ پیر: کراچی سے لاپتہ ہونے والی بلوچ شاعرہ کی رہائی، ’اہلکار میری والدہ کی لکھی ہوئی شاعری کی تلاش میں تھے‘ - 22/05/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).