بلوچستان میں ڈاکٹروں کی گرفتاری:’ینگ ڈاکٹرز‘ کا 48 گھنٹے میں مطالبات تسلیم نہ ہونے پر ایمرجنسی سروسز میں بھی کام روکنے کا اعلان

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


بلوچستان میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے ڈاکٹروں کی گرفتاری کے بعد بلوچستان بھر سے ینگ ڈاکٹروں کو کوئٹہ پہنچنے کی کال دیتے ہوئے 48 گھنٹے میں مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز سے بھی کام روکنے کا اعلان کیا ہے۔

ینگ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سنیچر کی شب دو بجے کے بعد پولیس نے دھرنے پر بیٹھے ینگ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو گرفتار کر کے انھیں دو تھانوں میں منتقلی کے بعد اتوار کی سہہ پہر ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ منتقل کر دیا ہے۔

’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان‘ کی سپریم کونسل کے رکن ڈاکٹر ارسلان کا دعویٰ ہے کہ ایک طرف 16 ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 19 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ دوسری جانب باقی عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے اگرچہ مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن وہ احتجاج پر مجبور ہیں کیونکہ حکومت ان کے ’جائز مطالبات‘ نہیں مان رہی۔

تاہم بلوچستان کے سیکنڈری ہیلتھ کے سیکرٹری نورالحق بلوچ نے ڈاکٹروں کے احتجاج کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان ڈاکٹروں کو پولیس نے سڑک کو بلاجواز بند کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے جس میں محکمہ صحت کا کوئی ہاتھ نہیں۔

سول

ینگ ڈاکٹروں اور حکومت کے درمیان تنازع سے مریض اور ان کے تیمار دار سخت پریشان

سول ہسپتال کوئٹہ شہر کا دوسرا بڑا سرکاری ہسپتال ہے۔ شہر کے مرکز میں ہونے کی وجہ سے نہ صرف کوئٹہ بلکہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد علاج کرانے کے لیے یہاں آتی ہے۔

اگرچہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے لوگوں کو حالیہ دنوں میں تقریباً روزانہ ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن پیر کی صبح جب شدید سردی میں وہ ہسپتال آئے تو او پی ڈی میں تالا لگا تھا۔

صبح گیارہ بجے کے بعد پولیس اہلکار آئے اور انھوں نے او پی ڈی پر لگے تالے کو توڑ دیا لیکن مریضوں نے ڈاکٹروں کے بغیر اسے بے سود قرار دیا۔

ضلع زیارت سے آنے والے ایک مریض کے رشتہ دار مجیب اللہ کاکڑ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ پانچ روز سے یہاں آ رہے ہیں لیکن ڈاکٹرز نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس والوں نے ابھی دوپہر کو آ کر تالا تو توڑ دیا لیکن اصل مسئلہ تالا توڑنے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ڈاکٹر آ کر یہاں بیٹھتے نہیں ہیں۔

مجیب اللہ کاکڑ نے بتایا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں کی موجودگی کو یقینی بنائیں تاکہ دور دراز سے آنے والے غریب مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

کوئٹہ شہر سے 50 کلومیٹر دور پشین سے لائی جانے والی ایک خاتون کی ہسپتال میں موت واقع ہو گئی۔ خاتون کی لاش کو واپس لے جاتے ہوئے خاتون کے بیٹے عبد العزیز نے بتایا کہ ہسپتال کا یہ عالم ہے کہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس طرح مر رہے ہیں۔

ینگ ڈاکٹروں کے مظاہرے

دوسری جانب کوئٹہ میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کی گرفتاری کے خلاف ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے بلوچستان بھر میں ہسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز کے سوا باقی تمام سروسز کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے۔

ینگ ڈاکٹرز گذشتہ دو ماہ سے احتجاج پر تھے لیکن 23 نومبر سے شدید سردی کے باوجود انھوں نے گورنر ہاﺅس کے قریب دھرنا دیا تھا۔

پولیس نے ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس کی گرفتاری کی کیا وجہ بتائی؟

ینگ ڈاکٹرز اپنے مطالبات کی حمایت میں 23 نومبر کو سول ہسپتال کوئٹہ سے ریلی نکالی تھی اور وہ وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے جا کر احتجاج کرنا چاہتے تھے۔

پولیس نے ان کو وزیر اعلیٰ ہاﺅس جانے نہیں دیا جس پر انھوں نے گورنر ہاؤس کے قریب ٹی اینڈ ٹی چوک پر دھرنا دیا۔

پولیس نے گرفتاری کے بعد ان ڈاکٹرز کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی اس میں احتجاج کرنے والے ینگ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس پر نو دفعات لگائی گئی ہیں۔

ایس ایچ او سول لائنز کی مدعیت میں درج کی جانے والی ایف آئی آر میں نہ صرف اس احتجاج کو ڈاکٹروں کے فرائض منصبی کے منافی قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ کہا گیا کہ سڑک پر دھرنے کی وجہ سے بچوں، ملازمین اور عام افراد کو ٹریفک جام کے باعث آمدورفت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ینگ ڈاکٹرز نے حالیہ احتجاج کیوں شروع کیا؟

بلوچستان میں ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کا احتجاج اب ایک معمول بن چکا ہے اور حالیہ احتجاج دو ماہ قبل شروع ہوا تھا۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت کو مطالبات کی جو فہرست پیش کی گئی ہے وہ 24 نکات پر مشتمل ہے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے سپریم کونسل کے رکن ڈاکٹر ارسلان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان 24 مطالبات میں سے دو تین کے سوا باقی تمام مطالبات مریضوں کی بھلائی کے لیے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’بچپن سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا لیکن نظام کے آگے بےبس ہوں‘

کیا اب پاکستان میں ڈاکٹر بننا ’گھاٹے کا سودا‘ بن چکا ہے؟

ٹیلی میڈیسن: پاکستان میں شادی شدہ خواتین ڈاکٹروں کا گھر بیٹھے روزگار کمانے کا ذریعہ

ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے بلوچستان میں سرکاری ہسپتال کھنڈرات بنے ہوئے ہیں اور ان میں علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ جب مریض ہسپتال آتے ہیں تو ادویات اور دیگر سہولیات نہ ہونے پر وہ اپنا سارا غصہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے عملے پر نکالتے ہیں۔

’ہسپتالوں میں ادویات اور جدید مشنری کو یقینی بنانا ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کا کام نہیں ہوتا بلکہ یہ کام حکومت کا ہے لیکن چونکہ ہسپتالوں میں مریضوں اور ان کے لواحقین کے سامنے ڈاکٹر یا دیگر طبی عملہ ہوتا ہے اس لیے انھیں لوگوں کے اشتعال اور غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

سول

انھوں نے بتایا کہ ینگ ڈاکٹروں کے ذاتی فائدے کے جو مطالبات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور جو پوسٹ گریجوایٹ سٹوڈنٹس ہیں ان کو ملک کے دیگر اچھے اداروں میں پڑھنے کے لیے ڈیپوٹیشن پر جانے کی اجازت دی جائے۔

ڈاکٹر ارسلان نے بتایا کہ سنہ 2016 میں ان کی تنخواہ 80 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی لیکن اس کے بعد اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

’ینگ ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ مہنگائی کے حساب سے ہماری تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔‘

انھوں نے ہسپتالوں میں مسائل کی تمام تر ذمہ داری پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کے شعبوں کے سیکرٹریز پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کو نجکاری کی جانب لے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ارسلان کا کہنا تھا کہ سول ہسپتال کوئٹہ میں امراض اطفال کا جو شعبہ تھا اس کو چلڈرن ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے جہاں غریب افراد کے لیے اپنے بچوں کے لیے علاج کرانا ممکن نہیں۔

’سول ہسپتال میں بچوں کا جو ٹیسٹ 20 روپے میں ہوتا ہے وہ چلڈرن ہسپتال میں 500 روپے میں ہو گا۔ ایک غریب آدمی اس کو کیسے برداشت کرسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے صوبائی وزیر صحت سید احسان شاہ کے ساتھ ایک اچھے ماحول میں مذاکرات ہوئے جس پر انھوں نے اپنے دھرنے کے مطالبات کو ایک جانب کر دیا تاکہ اس کی وجہ سے مریضوں کو تکلیف نہ ہو مگر اس کے باوجود پولیس نے کارروائی کر کے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو گرفتار کیا۔

ڈاکٹر ارسلان نے بتایا کہ رات کے اندھیرے میں مجموعی طور پر 19 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 16 ینگ ڈاکٹر شامل ہیں۔

انھوں نے صورتحال کی خرابی کی ذمہ داری محمکہ صحت کے دونوں سیکرٹریز پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات اور پرامن احتجاج کے باجود ان گرفتاریوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سیکرٹری معاملات کو حل کرنے میں مخلص نہیں۔

ڈاکٹر ارسلان نے مطالبہ کیا کہ ان دونوں کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور جب تک ان کو معطل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ینگ ڈاکٹرز حکومت سے کوئی بات نہیں کریں گے اور اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

محکمہ صحت کے حکام کا مؤقف

بلوچستان کے سیکنڈری ہیلتھ کے سیکرٹری نورالحق بلوچ نے ڈاکٹروں کے احتجاج کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام ینگ ڈاکٹرز اس احتجاج میں شامل نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ڈاکٹروں کو پولیس نے سڑک کو بلاجواز بند کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جس میں محکمہ صحت کا کوئی ہاتھ نہیں۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی کے نام پر یہ لوگ دو مطالبات منوانا چاہتے ہیں جن میں سے ایک پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے بغیر مستقل کرنے جبکہ دوسرا یہ کہ شہر کے نواح میں شیخ زید ہسپتال میں انھیں ڈیوٹی دینے کے لیے نہ بھیجا جائے۔

نور الحق بلوچ نے کہا کہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیے بغیر ینگ ڈاکٹرز کو مستقل نہیں کیا جا سکتا۔

’ایسا کرنے کی صورت میں خود حکومت کے لیے مشکلات ہوں گی کیونکہ گریڈ 16 سے اوپر کی آسامیوں پر تقرری کے لیے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنا لازمی ہے۔ اگر ڈاکٹروں کو پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیے بغیر مستقل کیا گیا تو کل دوسرے شعبوں کے لوگ اس طرح کے مطالبات کریں گے۔‘

انھوں نے ہسپتالوں کو نجکاری کی جانب لے جانے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چلڈرن ہسپتال کو پہلے ایک کمپنی چلارہی تھی لیکن اب قانون سازی کر کے اس کو حکومت کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔

’ہمارا ان ینگ ڈاکٹروں کو یہ کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں جو سہولیات دستیاب ہیں کم از کم ان کے اندر رہتے ہوئے فرائض سرانجام دیں لیکن یہ ڈیوٹی دینے کے لیے تیار نہیں۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments