گردوارہ کرتار پور صاحب


مذہب ایک اخلاقی معاشرتی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور روزمرہ کی زندگی میں اخلاقی اقدار متعین کرتا ہے۔ مذہب کسی فرد بشر کی انفرادی شخصیت اور کردار سازی میں مدد کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، مذہب سماجی اقدار کی تشکیل میں ایک محرک طور پر کام کرتا ہے اور مذہب، محبت، ہمدردی، احترام اور ہم آہنگی جیسی اقدار کی تعمیر بھی کرتا ہے۔ مذہب اپنے پیروکاروں کے لئے اس لئے بھی معتبر اور محترم ہے کیونکہ یہ اپنے پیروکاروں کو روحانی آسودگی، تسلی، اطمینان جیسی نعمتوں سے مالا مال کرتا ہے۔

گوردوارہ دربار صاحب یا کرتارپور صاحب ایک گوردوارہ ہے، جو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کے شکر گڑھ میں واقع ہے۔ گرو نانک نے 1504 ء میں دریائے راوی کے کنارے کرتار پور شہر کی بنیاد رکھی، کھیتوں میں ہل چلا کر اور ایک لنگر قائم کیا۔ یہ اس تاریخی مقام پر بنایا گیا ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی گرو نانک نے اپنے مشنری سفروں (ہریدوار، مکہ مدینہ، لنکا، بغداد، کشمیر اور نیپال) کے بعد سکھ برادری کو آباد کیا اور اکٹھا کیا۔ 1539 ء میں اپنی موت تک 18 سال زندہ رہے۔ یہ امرتسر میں گولڈن ٹیمپل اور ننکانہ صاحب میں گوردوارہ جنم استھان کے ساتھ سکھ مت کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔

ماضی میں ہندوستانی سکھ بڑی تعداد میں بلف پر جمع ہوتے تاکہ سرحد کے ہندوستانی حصے سے اس مقام کا درشن کریں کرتار پور کوریڈور کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے 9 نومبر 2019 ء کو دیوار برلن کے گرنے کی سالگرہ اور گرو نانک کے 550 ویں یوم پیدائش سے چند دن پہلے کھولا تھا۔ اس تاریخی لمحے نے باضابطہ طور پر ہندوستانی سکھ یاتریوں کو پاکستان میں اس جگہ تک نایاب ویزا فری رسائی کی اجازت دی۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا گردوارہ ہونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔

اس گوردوارہ میں سکھ اور دوسرے زیارت کرنے والے اس مقام کے تقدس کا انتہائی خیال رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر داخلے کے وقت لوگ جوتے اتار کر پانی سے پاؤں دھو کر اور خشک کر کے داخل ہوتے ہیں۔ اور اس مقام پر عورت ہو مرد ہو ننگے سر زیارت نہیں کر سکتے بلکہ انہیں گوردوارہ کی طرف سے پیلے رنگ کے رومال دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا سر کو ڈھانپ سکیں۔

رواں ماہ میں چند روز قبل کرتار پور کے گوردوارہ دربار صاحب کے حوالے سے ایک خاتون بلاگر کی تصاویر کے سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد پنجاب پولیس نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے، تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس معاملے کو ایک بھارتی سکھ صحافی رویندر سنگھ رابن کی جانب سے ٹویٹر پر اٹھایا گیا۔ اس کے علاوہ گوردوارہ کی انتظامی کمیٹیوں نے بھی اس واقعہ پر احتجاج کیا کہ کرتارپور صاحب کے گردوارہ سری دربار صاحب کے احاطے میں خواتین کے ننگے سر ایک ملبوسات کمپنی کے لئے ماڈلنگ سے سکھوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

منت کلاتھنگ، ملبوسات کمپنی کی طرف یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ یہ تصاویر ہمیں کسی تیسرے فریق (بلاگر) نے فراہم کی ہیں جس میں انہوں نے ہمارا لباس پہن رکھا ہے۔ اس ضمن میں تحقیقات کے بعد گرفتاری اور مقدمہ درج کرنے تک کی حکومتی ہدایات ہیں۔

اس مذہبی مقام پر ماڈلنگ کے حالیہ واقعہ سے یقینی طور پر سکھ قوم کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ کیونکہ جس طور سکھ اس مقام کے لئے عقیدت اور احترام رکھتے ہیں، وہ ہر غیر سکھ زائرین سے بھی خاص طور پر اس مقام کے احترام و عزت کی توقع کرتے ہیں۔

معاشرتی طور پر اینڈرائیڈ سیل فون ٹیکنالوجی نے ہماری بہت سی معاشرتی اقدار کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اور بجائے اس ٹیکنالوجی کے مثبت اور تعمیری افادیت کے ہم اسے منفی سرگرمیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ تو بات وہیں آجاتی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے ہمیں جنون کی حد تک اپنا گرویدہ بنا لیا کہ اپنے ذاتی مفاد اور غرض کے لئے کسی مقام یا شخصیت کا احترام اور تقدس ہمارے نزدیک اس لمحہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔

کچھ عرصہ قبل بادشاہی مسجد میں عوام کو نکاح کے لئے اجازت دی گئی تھی لیکن بعد ازاں اس سرگرمی پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ وہاں ان تقریبات کی آڑ میں اس مقام کا تقدس پامال ہو رہا تھا۔

خاص طور پر محکمۂ تحفظ آثار قدیمہ کے مطابق قومی اور تاریخی ورثے کی حامل عمارات اور مقامات میں فوٹو گرافی کے لیے تیز روشنی والی فلیش گن، ڈھول کی تھاپ پر دھمال یا اونچی آواز والے اسپیکر کی اجازت نہیں۔ کیونکہ الفا سرخ شعائیں تاریخی عمارتوں کے اصلی رنگ و روغن کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اونچی آواز کی گونج سے دیواروں میں دراڑیں پڑھ سکتی ہیں۔ لہذا مذہبی تقدس کے ساتھ تاریخی عمارتوں کے درو دیوار کے تکنیکی بنیادوں پر بھی تحفظ کے لئے ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔

مسیحیوں کے مقدس شہر ویٹی کن سٹی میں بھی سوائے عبادت کے کسی کو ماڈلنگ یا اس طرح کی معاشرتی و کمرشل سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ یہ مقام صرف اور صرف مذہبی اجتماعات کے لئے مخصوص ہے۔ مذہبی مقامات کے ساتھ ساتھ انبیاء اور اولیاء کا احترام بھی سب پر لازم ہے۔ 60 19 ء کی دہائی میں شہرت پانے والے برٹش راک بینڈ ”بیٹلز“ نے دورۂ امریکہ کے اختتام پر یہ بیان دیا کہ وہ امریکہ میں اپنے شوز کے بعد حضرت مسیح سے زیادہ مشہور ہو گئے ہیں۔ تو امریکہ نے ان کے اس بیان کے بعد امریکہ میں داخلے اور شو کرنے پر تاحیات پابندی لگا دی۔

کچھ عرصہ قبل مسجد وزیر خان، لاہور میں اداکارہ و ماڈل صبا قمر کے وہاں ماڈلنگ کے خلاف مقدمہ دائر ہوا، جو کہ ابھی تک کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ لہذا ملک میں جہاں ایسی کمرشل سرگرمیوں کے لئے مساجد کا احترام و تقدس ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے وہیں ہر مذہب اور عقیدے کی عبادت گاہ کے احترام کی مساوی حکومتی پالیسی ضروری ہے۔ ان تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد عقل سلیم اس حقیقت کا تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتی ہے کہ ہر فرد کے لئے اس کا مذہب انتہائی تقدس اور احترام کا حامل ہے۔

جس طرح مسلمانوں کے لئے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ نہایت قابل احترام ہیں ویسے ہی سکھوں کے لئے گوردوارہ گرو نانک اور گوردوارہ کرتار پور صاحب نہایت معتبر اور متبرک ہیں۔ لہٰذا کرتار پور صاحب میں آنے والے اس نا خوش گوار واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی اور مستقبل میں پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب اور ان کی عبادت گاہوں میں ایسے کسی بھی واقعہ کی روک تھام کے لئے مناسب قانون سازی کی جانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments