پیپلز پارٹی کا 54 واں یوم تاسیس، شہید بھٹو کا مشن!


پیپلز پارٹی 30 نومبر کو پورے 54 سال کی عمر کی ہو گئی ہے، پشاور میں مرکزی جلسہ منعقد کیا گیا ہے۔ جبکہ سندھ سمیت پورے ملک میں پارٹی کے یوم تاسیس کی تقریبات منعقد کی گئی ہیں۔ سالگرہ کے کیک کاٹے جا رہے ہیں۔ اور خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی جو چاروں صوبوں کی زنجیر ہوا کرتی تھی۔ وہ پی پی جس سے غریب عوام کی امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ پی پی پی جس کا نعرہ تھا روٹی کپڑا اور مکان۔ آپ پیپلز پارٹی کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے یا آپ پی پی کے مخالف جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں یا آپ کا کسی بھی پارٹی سے نہی ہے۔

یہ بات ماننی پڑے گی کہ ملک میں پانچ دہائیوں سے اگر کوئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جمہوری پارٹی رہی ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہی رہی ہے۔ جس کے پاس عوام کی اساس ہوا کرتی تھی! وہ الگ بات ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد پارٹی وہ پرفارمنس نہی کر پا رہی ہے جو پہلے تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی واقعے ہی عوامی پارٹی تھی! بھٹو شہید نے 1967 ع میں لاہور میں اپنی پارٹی پیپلز پارٹی کی بنیاد ایک ہوٹل میں رکھی تھی، ( لاہور کے مشہور اور قدیمی فلیٹی ہوٹل جہاں بھٹو قیام کرتے تھے ) ، پیپلز پارٹی واقعہ ہی چاروں صوبوں کی زنجیر تھی۔

اور وفاق کی علامت بھی کہا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی اب 54 برس کی ہو گئی ہے۔ شاید پاکستان میں اب عام آدمی کی عمر بھی 50 سے 55 اور 60 برس تک عمر کی ایوریج رہ گئی ہے۔ اور عوامی جمہوری پارٹی کی عمر کے حساب سے بوڑھی ہوتی جا رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی کو غریبوں کی جھونپڑیوں، مزدوروں کے کارخانوں میں پہنچایا۔ وہیں چاروں صوبوں میں بسنے والے عوام میں اپنی جگہ بنا ڈالی۔ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی کی ٹکٹ پر پہلی الیکشن کیمپین شروع کی تو بھٹو کو کہا گیا کہ! آپ کے ساتھ کون ہے۔ ؟

کون آپ کو سپورٹ کرے گا! پیپلز پارٹی 70 کی دہائی میں جب اقتدار میں آئی تو ذوالفقار علی بھٹو پہلے وزیر اعظم پاکستان بنے۔ پاکستان کو متفق کے طور پر 73 ع کا آئین دیا۔ جسے تمام سیاسی جماعتوں، مختلف شعبوں اور مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی عوام، لوگوں نے نہ صرف اسے دل سے قبول کیا بلکہ سراہا بھی گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی طبقہ 73 ع کہ اس آئین کو اسلامی آئین کا درجہ دے چکا ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں ایٹم بم کی بنیاد رکھی اور یہاں تک کہ دیا کہ وہ گھاس کھائیں گے مگر کسی پابندی کی پرواہ کیے بغیر وہ گھاس کھانا پسند کریں گے، مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی میں ایٹم بم بنایا گیا۔ آج پاکستان جتنا محفوظ اور طاقتور ہے وہ اعزاز کریڈٹ بھی پیپلز پارٹی کو ہی جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے روس کے تعاون سے کراچی میں اسٹیل مل لگا کر پاکستان کو بڑا تحفہ دیا۔ (جو آج بڑے خسارے میں ہے اور اس کے سینکڑوں ملازمین فارغ ہیں اور کسی بھی وقت ملز کی نجکاری کی جا سکتی ہے ) جبکہ پاکستان میں فتنہ احمدیت، قادیانیت کو بھی پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کے بعد اکثریت رائے سے غیر مسلم قرار دے کر ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔

پیپلز پارٹی نے عوام کو شناخت دینے کے لئے شناختی کارڈ کا اجرا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت 5 جولائی 1977 ع میں ختم کردی گئی اور دو سال بعد 1979 ع میں احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے جھوٹے قتل کے مقدمے میں راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف ایم آر ڈی تحریک میں حصہ لیا۔ جلاوطنی کاٹنے کے بعد وطن واپس آئی اور میدان میں اترتے ہوئے ضیاء الحق کی آمریت کا مقابلہ کیا۔

محترمہ نے 16 نومبر اور 19 نومبر 1988 ع کے عام انتخابات کے بعد پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی۔ دو سال بعد مدت پوری ہونے سے قبل ہی حکومت ختم کردی گئی۔ نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد دوبارہ تین سال بعد 1993 ع میں عام انتخابات ہوئے پیپلز پارٹی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی، محترمہ بے نظیر دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئی مگر ٹھیک 3 سال بعد 1996 ع میں پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کردی۔

وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کام نہ کر سکی یا اسے کام نہیں کرنے دیا گیا! مگر انہوں نے ثابت کیا کہ وہ واقعہ ہی لیڈر تھی۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں، شہید ذوالفقار علی بھٹو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف کوئی کرپشن سمیت سنگین الزام نہیں لگا سکتا، ! نہ ہی ان کو کسی نے کرپٹ یا چور کہا ہے۔ محترمہ کے خلاف کیس بنے، جیلیں کاٹی، مگر مقدمات جھوٹے ثابت ہوئے۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر انہوں نے عوام کی خبر لی۔ ورکرز کا خیال رکھا تھا۔ عوام کے بھلائی کے لئے کام کیے آج بڑے بڑے منصوبے پراجیکٹس اس کا ثبوت ہیں۔ ورکرز کو نوازا نوکریاں دی، غریب ہاریوں آباد کاروں میں زمینیں تقسیم کی۔ ان کی جائز مدد کی، کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی شہید ذوالفقار کے یا بے نظیر بھٹو کے پاس پہنچ گیا تو سمجھو اس کے کام گھر میں پہنچتے ہی ہوجاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کا ہی سکہ چلتا تھا۔ کیا پنجابی، پشتون، سندھی بلوچی، یا کشمیری یہاں تک کہ کراچی کے اردو بھائی ہوتے ایم کیو ایم میں تھے مگر ان لوگوں کی دل پیپلز پارٹی کے ساتھ دھڑکتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ہو یا بے نظیر بھٹو ان کے ایک اشارہ پر ہزاروں لاکھوں افراد امڈ آتے تھے۔

پیپلز پارٹی کے پاس اساس تھی، سوچ تھی، فکر فلسفہ تھا۔ تب ہی ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ یہاں دو بھٹو ہیں ایک میں ہوں دوسرا آپ ہیں۔ تب پارٹی تنظیم سازی نظم و ضبط ہوا کرتا تھا۔ مستحق لوگوں کو پیپلز پارٹی کے ذمہ داران بغیر کسی پارٹی وابستگی کے ان کے حق ان کے گھروں تک پہنچایا کرتے تھے۔ عام اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا تو طوفان برپا ہوجاتا تھا اگر کہا جائے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا بنیاد رکھا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس بنیاد پر عمارت کھڑی کردی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد آپ نے بھارت سے 90 ہزار سے زائد پاکستانی فوجی واپس کرائے۔ دوسری جانب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 ع کی الیکشن میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے، اور پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی نے پانچ سال مکمل کیے ۔ 18 ترمیم کی گئی اور کئی محکمہ صوبوں کو دے دیے گئے۔ یوں ایک بار بڑا موقع تھا کہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ عوام کے پاس جاتی ان کے دکھ درد پوچھتی، زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے پیپلز پارٹی جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی اسی پارٹی کو جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں کی پارٹی میں تبدیل کر دیا۔ اگر پیپلز پارٹی میں جان ڈالی جاتی، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح دوبارہ پیپلز پارٹی کو عوامی پارٹی بنا کر چاروں صوبوں میں مزید پھیلا کر کام کیا جاتا۔ تو آج پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کرپشن کیسز میں میں پھنسی ہوئی نہ ہوتی۔ بدقسمتی سے کوئی بھی ایک کام بھی عوامی فلاح و بہبود کے لئے نہیں کیا گیا!

2008 ع سے لے کر 2013 ع تک پانچ سال وفاق جبکہ سندھ میں 2008 ع سے لے کر 2013 ع سے 2018 ع کے عام انتخابات سے لے کر اب تک 13 سال سے پیپلز پارٹی براہ راست اقتدار میں ہے۔ اب موجودہ پیپلز پارٹی جسے زرداری لیگ بھی کہا جاتا ہے وہ کہاں کھڑی ہے؟ اب آتے ہیں 18 ترمیم کے بعد پیپلز پارٹی کے نظم و ضبط اور تنظیم سازی کی کی طرف۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے پاس ووٹ تو ہے مگر وہ بھی نظریاتی ووٹ نہیں پٹواری، چوکیداری، کلرک کی نوکری والوں کا ووٹ ہے، نہ کہ کارکن ہیں۔

اس وقت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھ میں وہ جگہ شہید خالد محمود سومرو کے شہادت کے بعد جے یو آئی نے لے لی ہے۔ جس کے پاس افرادی قوت ہے اور کارکنان ہیں، اثاث ہے۔ جس وقت لوگ پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے جلوس جلسوں میں آتے تھے اب اتنے افراد صرف مولانا راشد محمود سومرو کے جلسوں میں آتے ہیں یا ف لیگ کے پیر پگاڑا صاحب کے جلسوں میں آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں جو لوگ محترمہ بے نظیر کے قریب تھے۔

ان کو تھلے لگادیا گیا۔ جنہوں نے وفاداری تبدیل کی ان کو قبول کر دیا گیا۔ مخدوم امین فہیم جسے محترمہ اپنی جگہ پر دیکھنے چاہتی تھے اسے وزیر اعظم بننے نہیں دیا گیا۔ نئے نئے چہرے شامل ہو گئے، ایسے ایسے افراد پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے جن کے شمولیت کے بعد کارکردگی وہ رہی کہ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر سے ختم ہوتی ہوئی کے پی کے سے ختم ہوتی ہوئی پنجاب میں مکمل صفایا ہونے کے بعد بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں سے بھی پیپلز پارٹی صاف ہوتی ہوئی سندھ میں بھی صرف لاڑکانہ اور سکھر ریجن تک بچی ہوئی ہے۔

جہاں جے یو آئی اس وقت دونوں ریجن میں پیپلز پارٹی کو ہرانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ یوں 2018 کے عام انتخابات میں سندھ بھر میں اگر اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو نہ جتواتی، تو بلاول بھٹو زرداری لیاری کی طرح لبیک یارسول اللہ کے امیدوار کی طرح لاڑکانہ میں بھی جے یو آئی کے امیدوار مولانا راشد محمود سومرو سے بھی ہار چکے تھے۔ وہ تو معجزہ تھا جس کی وجہ سے اب بلاول بھٹو زرداری پارلیمانی ممبر ہیں۔

اور یوں سندھ میں پیپلز پارٹی کو 60 کے بجائے 100 سیٹوں تک سیٹیں دے کر جے ڈی اے اور جے یو آئی ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ہرایا گیا۔ جس کے بعد ان کو یقین ہو گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر اور سرداروں، جاگیرداروں، وڈیروں کے بغیر جیتنا ممکن نہیں ہے! اس میں کوئی شک نہیں ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے عوام کی خدمت کرنے کے بجائے سندھ میں لوٹ کھسوٹ کی بازار گرم کردی ہے۔ 13 سالوں میں صرف ورکس اینڈ سروس محکمہ میں 1500 سو ارب سے زیادہ کرپشن ہوئی ہے۔

تعلیم کا ستیہ ناس کر دیا گیا۔ رشوت خوری۔ کمیشن نے تمام اداروں کا بیڑہ ہی غرق کر دیا۔ صرف تھر، عمر کوٹ میں بھوک اور خوراک کی کمی کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ شہید بھٹو کے آبائی گڑھ لاڑکانہ میں ایڈز کی خطرناک بیماری میں ہزاروں معصوم بچے افراد مبتلا ہو گئے ہیں جس میں سینکڑوں بچے افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ صرف سندھ میں ہیپاٹائٹس اے بی، سی میں 50 لاکھ سے زائد افراد مبتلا ہیں۔

جبکہ سینکڑوں اس بیماری اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے قبروں تک جا پہنچے ہیں۔ سندھ بھر میں سانپ اور کتے کے کاٹنے کی ویکسین تک فراہم نہیں کی جا رہی۔ لاڑکانہ، جامشورو اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد اور بچوں کو کتے کاٹ چکے ہیں۔ محکمہ تعلیم کی یہ صورت حال ہے کہ 10 سالوں میں تعلیمی اداروں کی ریپیئرنگ کے مد میں آنے والی ساری رقم کرپشن کے نظر ہو گئی ہے۔ سندھ کے محکمہ خوراک میں اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔

وزیر، مشیر، ایم این اے۔ ایم پی اے۔ یا ان کے چہیتے کروڑ، ارب پتی بن گئے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔ محکمہ انفارمیشن میں 39 سیٹیں 17 گریڈ کی نوکریاں بغیر پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے اپنے اپنے من پسند افراد میں بانٹی گئی۔ جو ڈگری ہولڈر تھے وہ نظر انداز ہو گئے اور آج بھی وہ عمر بڑھنے کی وجہ سے نوکریوں کے لئے دھکے کھا رہے ہیں۔ جبکہ میرٹ کی سرعام خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

پبلک سروس کمیشن جیسے معتبر ادارے میں سیاسی افراد کو تعینات کر کے پیسوں اور سفارش پر نوکریاں دی جا رہی ہیں۔ حقیقت ہے کہ جس پیپلز پارٹی کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 ع میں رکھی تھی بدقسمتی سے اب وہ پارٹی ملٹی نیشنل کمپنی بن کر رہ گئی ہے۔ بس آپ اس پارٹی میں بزنس کے لئے سیاست کریں اور رقوم بٹورتے جائیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود قبضہ خوری، پولیس گردی، امن امان کی خراب صورتحال، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ، قتل و غارت گری، انتقام کی سیاست عروج پر ہے۔

پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ کو کھنڈر بنانے کی وجہ اور کام نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں مایوسی ہے۔ لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بس اسٹیبلشمنٹ کی آئی سی یو میں پیپلز پارٹی کو عارضی آکسیجن دے کر چلانے کی مشق ہو رہی ہے۔ سندھ کی عوام اس وقت سوچنے پر مجبور ہے کہ وہ کون سا راستہ اپنائیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ پیپلز پارٹی میں بدعنوانی، کرپشن کی وجہ سے وہ اپنی اثاث کھو بیٹھی ہے۔ سندھ میں متبادل کے طور پر کون سامنے آ رہا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ پیپلز پارٹی 55 سال میں سفر کر رہی ہے۔ جب تک پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے رویے تبدیل نہی کرتی یقین کیجیے پہلے سے نقصان میں جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments