وہ فتوی لینے آئے تھے


حسب معمول سہ پہر سے قبل فیصل آباد جنرل بس سٹینڈ کے سامنے آٹو پارٹس مارکیٹ کے چند دکاندار چائے اور گپ شپ کے لئے میری دکان پر جمع تھے۔ آج صدر صاحب کچھ خاموش افسردہ لگ رہے تھے جیسے صحیح سو نہ سکے ہوں اور تھکاوٹ ہو۔ پوچھا تو کہانی سنا دی، جو کچھ یوں تھی۔

کل دوپہر کے بعد کوٹ ادو علاقے کے ٹریکٹر پارٹس کے ایک دکاندار گاہک کا لاہور سے فون آیا کہ آج ہمارا کچھ انتظار کر لیں۔ کچھ دوسرا کام بھی ہے۔ مغرب کے بعد وہ دو تین اصحاب کے ساتھ پہنچ گئے خریداری کرتے کھانا کھاتے بتانے لگے کہ ان کو فلاں مکتب فکر کے مشہور مدرسہ کے مفتی صاحب سے کسی طلاق کے واجب یا قابل رجوع ہونے کے متعلق فتوی لینا ہے۔ لاہور اور ملتان سے لے لیا ہے، آپ ساتھ چل کر یہاں ہمارا کام کروا دیں۔ ہم رات گیارہ کی بس میں ایڈوانس بکنگ کروا کے آئے ہیں۔

عشاء کی نماز کے آدھ پون گھنٹہ بعد مدرسہ پہنچے۔ تمام طلبا شاید سونے جا چکے تھے۔ ڈھونڈتے ڈھانڈتے بالآخر ایک سینئر طالب علم ملا جسے مدعا عرض کیا تو کچھ پریشان ہوتے کہنے لگا مفتی صاحب تو سو چکے ہوں گے اور اب تو ملاقات مشکل ہے۔ جب اپنی مشکل بتائی تو وہ کسی انچارج یا مہتمم قسم کے طالب علم کو بلا لایا۔ وہ بھی پریشان کہنے لگا آپ کہتے ہیں تو میں ساتھ چلا چلتا ہوں۔ دروازہ کھلوانا آپ کو پڑے گا۔ ایک دو اور طالب علم ساتھ ہو لئے مگر سینئر طالب علم کچھ جھجک بھی رہے تھے اور متفکر بھی تھے کہ صبح ان کی شامت آ جائے گی۔

مفتی صاحب کے حجرے پہ پہنچ کر دستک دی۔ پھر دستک دی۔ جواب نہ آنے پر دیکھا تو باہر تو کوئی تالا والا نہ تھا گویا کنڈی اندر سے لگی تھی۔ اتنی دور سے سفر کی صعوبت برداشت کرتے آئے اور رات بھر کے واپسی سفر سے پریشان اور پھر دیہاتی، سائل دروازہ کھٹکھٹانے لگ گئے مگر اندر سے کسی ہل جل کے آثار نہ تھے۔ تب وہ پہلے والا طالب علم بول اٹھا کہ جناب میں نے تو آپ کو آتے ہی کہا تھا مفتی صاحب سے اس وقت ملاقات کی امید مت رکھیں۔ یونہی وقت ضائع نہ کریں۔ پھر ساتھ کھڑے لڑکوں سے بولا ”اوئے جاؤ ویکھو کیہڑا منڈا اپنے بسترے تے نہیں“ ( کون سا لڑکا اپنے بستر پہ نہیں )

بس کا روانگی کا وقت قریب تھا۔ وہ دل گرفتہ رنجور واپس آ کر بس میں بیٹھ کر گھر روانہ ہو چکے تھے اور میں اپنے گھر، مگر ساری رات مفتی صاحب کے حجرے کا دروازہ، طالب علموں کے جھجکتے معنی خیز نگاہوں والے پریشان اور اتنی دور سے آئے، تھکے سائلین کے مایوس اور خود سے شرمندہ چہروں نے سامنے آ آ کر سونے نہیں دیا۔

بتیس پینتیس برس قبل کی یہ کہانی اس دن سے کئی بار پھر ذہن میں ابھر آتی ہے جب سے کچھ ہفتہ قبل کسی گرفتار معلم کا فقرہ اخبار یا سوشل میڈیا پہ دیکھا ہے۔ “ہم سے ہوتا آیا ہے، ہم کرتے ہیں”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments