افغانستان میں طالبان: ہیومن رائٹس واچ نے سینکڑوں سابق فوجی اہلکاروں کے قتل، جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرا دیا


طالبان
ہیومن رائٹس واچ کی ایک نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز کے 100 سے زائد سابق اہلاروں کو یا تو طالبان نے ہلاک کر دیا ہے یا وہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لاپتہ ہو گئے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے باوجود مقامی کمانڈر سابق فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو ہدف بنا رہے ہیں۔

تنظیم نے طالبان قیادت پر ‘سوچی سمجھی ہلاکتوں’ کی ‘تائید’ کرنے کا الزام عائد کیا۔

طالبان نے بدلے کے لیے قتل کیے جانے کی تردید کی ہے۔

امریکہ نے جب افغانستان سے 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد اپنے فوجیوں کو نکالا تو اگست میں طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا اور اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

طالبان نے فوج، پولیس یا دیگر اداروں کے لیے کام کرنے والے سابق اہلکاروں کو یقین دلایا کہ وہ عام معافی کے تحت محفوظ رہیں گے۔

مگر کئی لوگوں کو اس معافی پر شک تھا۔ طالبان ماضی میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور سماجی کارکنوں کو قتل کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ سنہ 2020 کے اوائل سے لے کر اگست میں ملک سنبھالنے کے 18 ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کی ایک طویل مہم کے لیے بھی طالبان کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

قتل و غارت کی اس لہر میں ججز، صحافی اور سماجی کارکن شامل تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مہم کا مقصد اقتدار میں آنے سے پہلے ممکنہ نقادوں کا خاتمہ اور باقی بچ جانے والوں میں خوف پھیلانا تھا۔

منگل کو شائع ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت میں بھی ٹارگٹ کلنگز جاری رہی ہیں اور غزنی، ہلمند، قندوز اور قندھار سے 100 سے زیادہ لوگ یا مارے گئے ہیں یا لاپتہ ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا طالبان افغانستان پر راج کرتے بھوک و افلاس کا خاتمہ کر پائیں گے؟

طالبان اپنے ’سر درد‘ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے باعث کس مشکل سے دوچار ہیں؟

پاکستان کے لیے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کروانا اہم کیوں؟

تنظیم کا کہنا ہے کہ طالبان نے سکیورٹی فورسز کے ہتھیار ڈالنے والے یونٹس سے اپنا اندراج کروانے کو کہا تھا تاکہ اُنھیں حفاظت کی سند دی جا سکے مگر اس معلومات کا استعمال اُنھیں گرفتار، قتل یا ‘غائب’ کر دینے کے لیے کیا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ممکنہ طور پر طالبان نے گرفتاریوں اور قتل کے لیے حکومت کے چھوڑے گئے ریکارڈز سے بھی استفادہ کیا ہو گا۔

اس تنظیم کی ڈائریکٹر برائے ایشیا پیٹریشیا گوسمین نے کہا: ‘طالبان حکومت کی جانب سے عام معافی کے وعدے کے باوجود مقامی کمانڈر سابق افغان سکیورٹی اہلکاروں کو غائب کرنے یا رسمی کارروائی کے بعد قتل کرنے سے باز نہیں آئے ہیں۔’

اُنھوں نے کہا: ‘مزید قتل روکنے، ذمہ داروں کا احتساب کرنے اور مقتولین کے خاندانوں کو معاوضہ فراہم کرنے کی ذمہ داری طالبان کی ہے۔’

طالبان کے وزیرِ اعظم محمد حسن آخوند نے سنیچر کو اپنے ایک عوامی خطاب میں بدلے لیے جانے کی تردید کی۔

اُنھوں نے کہا کہ جب طالبان نے کنٹرول سنبھالا تو اُنھوں نے ‘سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ کیا اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ کسی کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments