ایڈز کا عالمی دن: ’جعلی حکیم نے مجھے یقین دلایا کہ میں ایچ آئی وی سے صحت مند ہو چکی ہوں‘

ریچل شریئیر - بی بی سی نیوز


Doreen Moraa Moracha
Doreen Moraa Moracha
آخری بار جب پال تھورن نے اپنے والدین کو دیکھا تو انھوں نے انفیکشن کے خوف سے وہ برتن پھینک دیے جس میں انھوں نے کھانا کھایا تھا۔ جب سنہ 1988 میں پال تھورن میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تو انھیں بطور نرس اپنی تربیت کا سلسلہ روکنا پڑا تھا۔

ان کے مطابق میں نے ’اپنی زندگی کی 20 سے 30 سال خوف میں گزارے۔‘

اب برطانیہ میں مقیم پال اس بیماری کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں، سوائے دن میں ایک گولی لینے اور سال میں دو بار اپنے ڈاکٹر سے ملنے کے۔

ایچ آئی وی کا شکار ایسے لوگ جو علاج بھی کرواتے ہیں، وہ مکمل طور پر معمول کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور پرانے اور غلط خیالات کہ آپ کسی کی پلیٹ میں کھائیں گے تو اس سے اس مرض کی لپیٹ میں آ جائیں گے، اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔ مگر نقصان دہ اور غلط قسم کی معلومات اب بھی سننے کو ملتی ہیں۔

ایچ آئی وی کے علاج کا دعویٰ اب بھی کیا جاتا ہے

کینیا سے تعلق رکھنے والی ڈورین مورا موراچا اپنی پیدائش سے ہی ایچ آئی وی میں مبتلا تھیں لیکن ان میں پہلی بار 2005 میں اس کی تشخیص ہوئی، جب وہ محض 13 سال کی تھیں۔

وہ ایک ٹی وی اشتہار دیکھ کر تنزانیہ میں ایک مقامی شخص کے پاس پہنچی تھیں جس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایک ایسا معالج ہے کہ جو ڈورین اور ان کی ماں کے ایچ آئی وی کا علاج کر سکتا ہے۔

ان کے مطابق ’ہم نے وہ جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دوائیں پی لیں جو وہ بیچ رہا تھا اور ہم یہ سمجھ کر واپس لوٹے کہ اب ہمیں ایچ آئی وی سے نجات مل چکی ہے۔‘

اس کے بعد انھوں نے اس مرض کی منتقلی کو روکنے والی دوا (اینٹی ریٹرووائرلز) لینی بند کر دی جس سے پھر ان کا مدافعتی نظام کمزور ہو گیا جس کے نتیجے میں وہ جلدی بیماریوں اور نمونیا میں مبتلا ہو گئیں۔

ان کا وائرل لوڈ یعنی خون میں ایچ آئی وی کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ انھیں ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر اُنھیں کوئی اور انفیکشن ہوا تو اس سے وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتی ہیں۔

اب ان پر ایک بات واضح ہو گئی کہ وہ جعلی معالج بس ایک فراڈ تھا۔

لیکن متعدی امراض کی ڈاکٹر اور انٹرنیشنل ایڈز سوسائٹی کی صدر ڈاکٹر ادیبہ قمرالزمان کے مطابق ایچ آئی وی کے علاج سے متعلق بڑا دعویٰ عام ہے۔

فی الحال ایچ آئی وی کی کوئی ویکسین یا علاج موجود نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس وائرس سے صحت یاب ہونے والے لوگوں کے بارے میں حالیہ کہانیوں سے امیدیں ضرور بڑھ گئی ہیں۔ رواں ماہ ارجنٹائن میں ایک خاتون تاریخ کی دوسری ایسی شخصیت بن گئی ہیں جو بظاہر اپنے مدافعتی نظام کے ذریعے ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو چکی ہیں۔

Joyce Mensah

Joyce Mensah
جوائس مینسہ

’آپ ہمیشہ ہی یہ وائرس منتقل کرنے کا ذریعہ بنی رہیں گی‘

گھانا سے تعلق رکھنے والی جوائس مینسہ اب اس داغ سے بچنے کے لیے جرمنی چلی گئی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اپنی صحت کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے وہ اپنی ملازمت، تعلقات سے محروم ہوئیں اور پھر اپنا آبائی ملک چھوڑنے پر بھی مجبور ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس بدنما داغ کی بنیاد ایک غلط نظریے پر رکھی گئی ہے کہ اگر ایک بار جب کسی کو ایچ آئی وی ہو جائے تو ہمیشہ یہ خطرہ رہتا ہے کہ وہ اسے اپنے شریک حیات یا بچے کو منتقل کر سکتی ہیں۔

جب کوئی شخص اپنے کسی رشتے دار یا پارٹنر کے سامنے اپنی ایچ آئی وی کے مرض کا انکشاف کرتا ہے تو ایسے میں لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ 100 فیصد محفوظ نہیں ہے، ایک بار جب آپ میں اس بیماری کی تشخیص ہو جائے تو پھر آپ ہمیشہ اس مرض میں مبتلا رہتے ہیں‘۔

درحقیقت ایک بار جب کوئی ایسا مریض طویل عرصے کے لیے اینٹی ریٹرو وائرل دوائیاں لیتا ہے تو اس کے خون میں کسی وائرس کی تشخیص نہیں ہو سکتی اور اس وائرس کی منتقلی کے بارے میں صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

علاج کے دوران جوائس کے چار بچے تھے، جن میں سے کسی کو بھی وائرس نہیں ہوا۔

ماں سے بچے میں منتقلی مناسب علاج سے روکی جا سکتی ہے اور چونکہ اس کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے تو یہی وجہ ہے کہ سنہ 2010 کے بعد سے دنیا بھر میں واقعات نصف ہو گئے ہیں۔

اس کے باوجود گھانا میں اُن کی بیٹی کو اس غلط فہمی کی بنیاد پر سکول سے نکال دیا گیا کہ اسے بھی وائرس تھا اور یہ کہ اب اگر اسے سکول سے گھر نہ بھیجا گیا تو اس سے دوسرے بچے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

ایان گرین برطانیہ میں ایک خیراتی ادارے ’ٹیرنس ہگنز ٹرسٹ‘ کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور ایچ آئی وی کا شکار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’ایچ آئی وی کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ اور یقینی طور پر میرا تجربہ بھی یہ ہے کہ آپ اکثر خود کو بیماری پھیلانے کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

’کئی برس سے، میں وائرس کی کسی اور میں منتقلی سے متعلق گھبراتا تھا۔ اب یہ جان کر کہ میرے لیے وائرس کو منتقل کرنا ناممکن ہے، اب یہ ایک تسلی کا ذریعہ بن چکا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

لاک ڈاؤن نے ایچ آئی وی کے شکار افراد کو کیسے متاثر کیا؟

’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا خون اور سپرم زہریلے ہیں‘

کورونا کے علاوہ وہ چار وائرس جن کی کوئی ویکسین نہیں

’ایچ آئی وی اب کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے‘

ایچ آئی وی اب موت کی وجہ نہیں رہا اور وائرس سے متاثرہ افراد نارمل اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ آگاہی مہم چلانے والوں میں سے بعض کا خیال ہے کہ یہ تصورات بھی اب ایک اور مشکل پیدا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر قمرالزمان کہتی ہیں کہ ’ایچ آئی وی کے علاج اور روک تھام کے آلات میں حیرت انگیز پیش رفت ہوئی ہے لیکن یہ تاثر کہ ایڈز ختم ہو چکا ہے، احتیاطی تدابیر کے طور یہ بہت زیادہ مددگار نہیں ہے اور یقینی طور پر یہ ایچ آئی وی کا علاج ڈھونڈنے پر تحقیق پر ہونے والی سرمایہ کاری کو بھی متاثر کرے گا۔‘

ایچ آئی وی وہ وائرس ہے جو مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو پھر یہ ایڈز کا سبب بن سکتا ہے ایک ایسی بیماری جہاں جسم معمولی انفیکشن سے بھی لڑ نہیں سکتا۔

سنہ 2020 میں دنیا بھر میں تقریباً تین کروڑ 80 لاکھ افراد ایچ آئی وی کے ساتھ رہ رہے تھے اور تقریباً سات لاکھ افراد ایڈز سے متعلقہ بیماریوں سے ہلاک ہوئے جو کہ وائرس کے علاج نہ ہونے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

پال تھورن کا خیال ہے کہ نوجوان لوگ اسے بوڑھوں کی حد تک ایک بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کے بارے میں ٹیرنس ہیگنس ٹرسٹ کے ایان گرین نے اس پر بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں میں ’عام طور پر کم بیداری ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایچ آئی وی ماضی کی کوئی چیز ہے‘۔

‘میں ایسا شخص نہیں ہوں جسے ایچ آئی وی ہو جاتا ہے’

جس طرح نوجوان لوگ اسے بوڑھے شخص کی بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں، بہت سے لوگ اس وائرس کو صرف ہم جنس پرست مردوں کو متاثر کرنے والی بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں۔

خیراتی ادارے ’فرنٹ لائن ایڈز‘ کی کرسٹین سٹیگلنگ کے مطابق دنیا بھر میں ایچ آئی وی میں مبتلا افراد میں سے نصف سے زیادہ خواتین ہیں اور یہ عالمی سطح پر تولیدی عمر کی خواتین کا سب سے بڑا قاتل ہے۔

لیکن چند خواتین جن سے انھوں نے بات کی وہ اپنے خطرے سے آگاہ تھیں۔

اس کے ساتھ مشغول ہونا ایک بہت اہم ’ڈیٹا پوائنٹ‘ ہے کیونکہ جو خواتین اس عمر کے گروپ میں ہیں اور وہ خواتین جو حاملہ ہونا چاہتی ہیں انھیں غیر محفوظ جنسی تعلقات کے بارے میں مشکل گفتگو کرنی پڑتی ہے۔

اگرچہ بہت بڑی پیش رفت ہوئی ہے مگر غلط معلومات اب بھی پھیل جاتی ہیں اور لوگوں کو ملازمتوں، رشتوں، صحیح علاج یا یہاں تک کہ تشخیص کے بغیر چھوڑ سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments