اومیکرون: کیا سفری پابندیاں کورونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف موثر ہیں؟

بی بی سی ریئلٹی چیک - بی بی سی نیوز


Haneda airport
رواں برس کے آغاز پر سفری پابندیوں کے دوران جاپان کے ٹوکیو ایئرپورٹ کا ایک منظر
جنوبی افریقہ، جہاں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی پہلی بار تصدیق ہوئی، نے ملک پر عائد سفری پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کے جواز پر سوال اٹھایا ہے۔

جنوبی افریقہ کے صدر سرل رامافوسا کا کہنا تھا کہ ’سائنسی اعتبار سے سفری پابندیوں کے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں اور نہ ہی یہ وائرس کی اس قسم کے پھیلاؤ سے بچاؤ فراہم کرتی ہیں۔‘

اس حوالے سے سائنس کیا کہتی ہے؟

President Cyril Ramaphosa in the South African national assembly

جنوبی افریقہ کے صدر سرل رامافوسا کا کہنا ہے کہ سفری پابندیاں غیر موثر ہو گیں

عالمی ادارہ صحت کا موقف

عالمی ادارہ صحت نے فروری سنہ 2020 میں کہا تھا کہ کووڈ وائرس کو دوسرے ممالک تک پھیلنے سے روکنے کے لیے سفری پابندیاں ’عام طور پر موثر نہیں ہوتیں‘ اور ان کے سنگین اقتصادی اور سماجی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس وقت ’سفری پابندیوں کا، جو بین الاقوامی ٹریفک میں نمایاں طور پر خلل ڈالتی ہیں، صرف وبا کے آغاز میں ہی جواز پیش کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ دیگر ممالک کو وبا سے بچاؤ کے اقدامات کرنے کے لیے وقت فراہم کر سکتی ہیں۔‘

Woman on phone at OR Tambo international airport

جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کے ہوائی اڈے پر پھنسی ایک مسافر ملک سے باہر جانے کے لیے پرواز حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں

اُس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چین اور یورپ سے امریکہ کے لیے پروازیں روکنے کے ان فیصلے کی حمایت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اس مشورے کو سنگاپور اور تائیوان جیسے ایشیائی ممالک نے بھی نظر انداز کیا تھا جنھوں نے چین پر سفری پابندیاں عائد کر دی تھیں اور اس کے بعد دنیا بھر سے دیگر ممالک نے بھی ایسے ہی اقدامات لیے۔

اُس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے اپنی ہدایات میں ترمیم کی اور ’خطرے کی بنا‘ پر سفری پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی۔

ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا کے ممالک کو بین الاقوامی سفر کو محدود کرتے وقت ویکسینیشن یا قدرتی انفیکشن سے قوت مدافعت کی بڑھتی ہوئی سطح، مختلف اقسام کے پھیلاؤ، ٹیسٹنگ اور قرنطینہ جیسے اقدامات کے موثر ہونے کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’وہ ممالک جنھیں یہ تشویش ہے کہ وائرس کی نئی اقسام دوسروں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے کچھ وقت کے لیے زیادہ سخت سفری پابندیاں نافذ کریں۔‘

عالمی ادارہ صحت کا مزید کہنا ہے کہ یہ اقدامات ’متناسب‘ ہونے چاہیے۔

سائنسی شواہد کیا ہیں؟

گذشتہ برس وبا کے ابتدائی مراحل کے دوران کی جانے والے تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ سفری پابندیوں کا قلیل مدتی اثر ہوتا ہے اور اس طرح کم از کم وائرس کے پھیلاؤ کو سست کرنے میں مدد ملتی ہے۔

دسمبر 2020 میں سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سفری پابندیوں کا وبا کے آغاز میں کچھ فائدہ ہوا تھا لیکن بعدازاں ان کو عائد رکھنا خاص موثر نہیں تھا۔

جرمنی کے ڈبلیو زیڈ بی برلن سوشل سائنس سنٹر کی گذشتہ اکتوبر شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بھی ایسے ہی نتائج سامنے آئے تھے۔ اس تحقیق میں 180 ممالک کی سفری پابندیوں اور ان میں اموات کی شرح کا موازنہ کیا گیا تھا۔

اس تحقیق میں مزید کہا گیا کہ:

  • سفری پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر اس وقت ہوا جب ممالک نے اپنے ہاں دس یا اس سے زائد اموات سے قبل ان پابندیوں کو عائد کیا۔
  • لازمی قرنطینہ کی شرط ملک میں داخلے پر پابندی سے زیادہ مؤثر رہی (چند ممالک میں اس کی بدولت شہریوں کو واپس آنے کی اجازت تھی)۔
  • تمام بین الاقوامی سفر پر پابندی لگانے کے بجائے گنے چنے ممالک سے مسافروں کی آمد پر لگائی جانے والی قدغنیں زیادہ کار آماد ثابت ہوئیں۔
لائن

اومیکرون: کورونا کی نئی قسم سے بچاؤ کا کیا طریقہ ہے؟

کورونا وائرس کی اومیکرون قسم ‘باعثِ تشویش‘ ہے: ڈبلیو ایچ او

کووڈ کی نئی قسم کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنا ’مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے’


برطانیہ میں وبا کے ابتدائی دنوں پر ہونے والی تحقیق میں دیکھا گیا کہ جس وقت ملک نے اپنی سرحدیں بند نہیں کی تھیں تب بھی تو وائرس کے کئی ہزار کیسز ملک میں سامنے آ چکے تھے جن میں سے زیادہ تر دیگر یورپی ممالک سے آئے تھے۔

وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی اب تک تقریباً ایک درجن ممالک میں شناخت ہو چکی ہے۔

لندن کی کوئین میری یونیورسٹی سے منسلک وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر دیپتی گرداسنی کے مطابق اگرچہ سفری پابندیاں وائرس کے پھیلاؤ کو سست کر سکتی ہیں تاہم اب تک یہ بات واضح ہے کہ نئی قسم بھی دنیا کے کئی حصوں تک پھیل چکی ہے۔

’سفری پابندیوں کے بجائے باقاعدہ جانچ پڑتال اور قرنطینہ کی پالیسیاں وبا کے پھیلاؤ کو کم کر سکتی ہیں۔‘

Line of passengers inside Schiphol Airport

یورپی ایئرپورٹس پر لمبی قطاریں لگنا شروع ہو گئی ہیں

وبا کے ابتدائی دنوں اور آج میں ایک اہم فرق ویکسین کی موجودگی ہے تاہم ویکسینیشن کے عمل کی نہ صرف رفتار ہر ملک میں مختلف ہے بلکہ اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ موجودہ ویکسین اس نئی قسم سے کتنا تحفظ فراہم کر سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر ایسے ممالک جن کی معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے، سفری پابندیوں کے نقصانات کا جائزہ لے کر ہی ایسا کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ سختی کہاں ہے؟

آسٹریلیا نے 18 ماہ کی بندش کے بعد نومبر میں اپنی سرحدیں کھولی تھیں۔ اس سے قبل صرف آسٹریلوی سہریوں کو ملک سے آنے جانے کی اجازت تھی اور اس کے لیے بھی خصوصی اجازت درکار تھی۔

حالیہ واقعات کے بعد اس نے ایک بار پھر بین الاقوامی طلبہ اور ہنرمند ملازمین کی ملک میں آمد روک دی ہے۔

Hanoi airport check in terminals

ویتنام نے حال ہی میں اپنی سرحدیں کھولی تھیں

اس کے علاوہ نیوزی لینڈ نے پچھلے سال سے ہی اپنی سرحدیں نہیں کھولیں البتہ وہاں کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اپنے شہریوں اور ایسے آسٹریلوی جن کے پاس نیوزی لینڈ کا ویزا ہے صرف وہ ہی 2022 سے ملک میں داخل ہو سکیں گے۔ اس کے بعد اپریل میں توقع ہے کہ ویکسینیٹڈ سیاحوں کے لیے بھی سرحدیں کھل جائیں گی۔

ویٹنام کی جانب سے لگائی جانے والی سفری پابندیاں خاصے طویل عرصے تک لاگو رہیں اور وہاں کی حکومت بھی اسی ماہ ان میں نرمی لائی ہے۔

ان ممالک میں جولائی 2021 تک کورونا کیسز کی شرح قدرے کم رہی۔ اس کے بعد انڈیا میں شناخت ہونے والا ڈیلٹا ویریئنٹ سامنے آ گیا۔

تاہم ہم نے دیکھا کہ بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور ماسک پہننے جیسے حفاظتی اقدامات انفیکشن کی شرح کم رکھنے میں سفری پابندیوں جتنے ہی مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments