موہن بھگوت کی تکلیف


ہندوستان کی انتہا پسند جماعت، راشٹریا سیوک سنگھ ’’آر ایس ایس‘‘ کے سربراہ موہن بھگوت نے 26نومبر کو ایک تقریب میں کہا کہ ہندوستان کے بٹوارے کا دُکھ دائمی ہے اور یہ تکلیف، اِس تقسیم کے خاتمے سے ہی رفع ہو سکتی ہے۔ 27نومبر کو حکومت پاکستان نے ردِ عمل دیا کہ یہ سوچ ایک ایسے شخص کی ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو کر تخیلاتی دُنیا میں رہتا ہو۔قارئین کو علم ہے کہ آر ایس ایس 1925میں وجود میں آئی۔ اُنہی دنوں ایک نام نہاد فلاسفر ’’سوارکر‘‘ نے ہندو دھرم کی سماجی برتری کو عملی شکل دینے کے لیے ہندتوا اور اکھنڈ بھارت کے نظریات تخلیق کئے۔ آر ایس ایس اِن نظریات کی تکمیل میں جُت گئی اور وطن پرست ہندو نوجوانوں کی برین واشنگ کا عمل شروع ہوا۔ ’’برین واشنگ‘‘ ایک انگریزی اصطلاح ہے۔ اِس عمل میں ایک مخصوص نقطۂ نظر دماغ میں اِس حد تک ٹھونس دیا جاتا ہے کہ متضاد رائے کی گنجائش نہیں رہتی۔ آر ایس ایس کے کارکنوں کی ذہنی تربیت کے لیے تواتر سے مجالس منعقد ہوتیں جن میں ہندو سورمائوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگوں کی جھوٹی سچی داستانیں سُنائی جاتیں۔ اِس فسطائی تنظیم نے بھوٹان، افغانستان، نیپال، برما اور سری لنکا کی شمولیت سے اکھنڈ بھارت کا نقشہ ترتیب دیا۔ اِس پس منظر میں 23مارچ کی قرار داد لاہور اکھنڈ بھارت کے حامیوں پر قیامت ڈھا گئی۔ ہندوستان کی تقسیم سے جغرافیائی طور پر دو حصوں پر مشتمل ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آیا۔ سری لنکا، نیپال اور برما نے انگریز حکومت سے الگ الگ آزادی حاصل کی۔ اکھنڈ بھارت کا خواب ادُھورا رہ گیا۔ اِس ناکامی کی وجہ اِن جماعتوں کی خراب حکمت عملی تھی۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں صرف اپنی طاقت پر بھروسہ کر رہی تھیں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے کسی قسم کا آئینی انتظام اُنہیں قبول نہ تھا۔ اِس بےلچک رویے نے سماج میں دراڑیں ڈالیں۔ مختلف رنگ و نسل، قومیتوں اور مذاہب سے جُڑے عوام کو ایک سیاسی لڑی میں پرونے کا عمل، سوچ میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ایک طرف تنگ ذہن اور انتہا پسند ہندو جماعتیں تھیں تو دُوسری طرف سیکولرازم کا دم بھرنے والی کانگریس بھی ذہنی کشادگی اور وُسعتِ سوچ کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ پاکستان وجود میں آیا جو آج بھی موہن بھگوت کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔

مجھ ناچیز سے اگرآر ایس ایس کے سربراہ مشورہ کرتے تو اُنہیں صلاح دیتا کہ وہ یورپین یونین کی تشکیل کا مطالعہ کریں۔ تاریخ میں یورپین ممالک نے باہمی اختلافات ختم کر کے دُنیا کے لیے ایک منفرد مثال قائم کی ہے۔ اِس تجربے میں اہل دانش کے لیے سبق ہے کہ انسان اپنے فطری تعصبات پر قابو پا سکتا ہے۔ یورپ کی سیاست ہزار سال سے زیادہ عرصے تک باہمی مخاصمت کے راستے پر گامزن رہی۔ لاکھوں انسانی جانیں ضائع کرنے اور ہنستے بستے شہروں کو کھنڈر بنانے کے بعد متحارب قوموں نے امن کی راہ اپنائی۔ اِس راستے میں سب سے مشکل مرحلہ تاریخ کے زخموں پر مرہم رکھنا تھا۔ ایک قوم کے ہیرو دُوسری کے ولن تھے۔ یہ تفریق بہت گہری تھی مگر اہل دانش کی مدد سے یورپین قوموں نے ایک تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے بعد اِس مشکل کا حل نکالا۔ اہلِ علم نے اکٹھے ہو کر درسی کتب میں مشترکہ تاریخ ترتیب دی۔ ذہنوں کو تعصبات اور منافرت سے پاک کیا۔ جنگ کے بعد پیدا ہونے والی نسلیں تعصب اور نفرت کے گرداب سے باہر آ گئیں۔ باہمی جنگوں کے اخراجات سے نجات ملی تو خطے کے معاشی حالات بہتر ہوئے۔ یورپین ممالک کے درمیان سرحدیں تو قائم ہیں مگر لوگوں کی آمدورفت اور تجارت میں رکاوٹیں ختم کر دی گئیں۔ یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ سیاست دان مدبرانہ سوچ اپنا لیں تو ناممکن بھی ممکن ہو سکتا ہے۔

آر ایس ایس ہندوستان میں آج بھی تاریخ کے پرانے زخم تازہ رکھنے میں مصروف ہے۔ وہ ہر مسئلے کا حل طاقت کے استعمال میں دیکھتے ہیں۔ مگر مشکل یہ درپیش ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ ہندوستان کی تقسیم ختم کرنے کا خواب دونوں ملکوں کی مکمل تباہی کے بعد بھی ممکن نہیں ہو گا۔ تقسیم ختم کرنے کے لیے باہمی اشتراک سے ایک نئی حکمت عملی اپنانی ہو گی۔ سب سے پہلے ہندو دھرم کی تہذیبی اجارہ داری سے جُڑی سوچ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اِس وقت پاکستان کے علاوہ نیپال اور سری لنکا کے ساتھ بھی ہندوستانی حکومت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ بنگلا دیش کے حوالے سے مجھے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی سکیورٹی کونسل میں 16دسمبر سے پہلے کی گئی تقریر یاد آتی ہے۔ اُنہوں نے ہندوستانی وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ کو مخاطب کر کے کہا تھا۔ ’’اومار، سونار، بنگلا، پاکستان سے علیحدہ ہو بھی گیا تو ہندوستان کا حصہ نہیں بنے گا‘‘۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنگلا دیش کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات اُونچ نیچ کا شکار رہتے ہیں کیونکہ طاقت کے نشے میں چُور ہندوستان چھوٹے ہمسایہ ملکوں پر اپنی مرضی ٹھونستا ہے۔ کبھی نیپال کا علاقہ ہندوستان میں شامل کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور کبھی چین کے ساتھ سرحدی جھڑپیں۔ بنگال سے جُڑے ہندوستانی صوبوں میں مسلمانوں کے ساتھ بُرا سلوک بنگلا دیش میں منفی ردِ عمل پیدا کرتا ہے۔ موہن بھگوت اگراپنی سوچ میں سنجیدہ ہیں تو اُنہیں ہندتوا کے بطن سے جنم لینے والی سماجی دراڑیں بھرنی پڑیں گی۔ دلوں کو جوڑنے کا عمل غیرمذاہب کے پیروکاروں کی تہذیب کا احترام کئے بغیر ممکن نہیں۔ لسانی تعصب اور رنگ و نسل کی منافرت بھول کر ہی پرانے زخموں کو مندمل کیا جا سکتا ہے۔

یورپ نے دُنیا کو عملی طور پر سرحدیں ختم کرنے کا طریقہ سکھا دیا ہے۔ آر ایس ایس کے کارکنوں کی ذہنی تربیت کے نصاب پر نظرثانی کرتے ہوئے اُنہیں یورپ کی مثال سے سبق سکھانا چاہیے۔ ہندتوا اور ہندو دھرم کی سماجی برتری کے نعرے سے اجتناب اور دل میں وسعت پیدا کرنے کی تعلیم دی جائے۔ اگر ہندو سماج اِس قابل ہو گیا کہ حقوق کے تحفظ سے بےبس اقلیتوں کا دل جیت سکے تو ہمسایہ ممالک کا اعتماد بحال ہو گا۔ بہتر ہوگا کہ یہ عمل کشمیر سے شروع ہو۔ کشمیریوں کو اگر اُن کی مرضی کے مطابق جینے کا حق دیا جائے تو شاید ایک دن برصغیر بھی یورپین یونین کی طرح ایک پُر امن اور ترقی یافتہ خطہ بن کر دُنیا کے نقشے پر اُبھرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments