کیا آپ قطب آن لائن والی سرکار کو جانتے ہیں؟


انگریزی کا ایک ایکسپریشن ہے ”ٹو بوٹ سیلنگ“ مطلب ایک ساتھ دو کشتیوں کی سواری کرنا ظاہر ہے اس کا نتیجہ اس کے علاوہ کیا نکل سکتا ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم یا نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ پیشگی معذرت اگر لفظوں کو آگے پیچھے کر دیا ہو مگر مفہوم یہی ہے کہ دو کشتیوں کا سوار کبھی منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔ ہمارے سماج کا ڈھانچہ کچھ اس طرح سے تشکیل پا گیا ہے کہ پیور فارم میں کوئی بھی چیز پیش نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے ساتھ روحانیت اور مذہب کا تڑکا لگا کر کر مقبول عام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اسی مجبوری کی وجہ سے تضاد بیانی اور منافقت کا کلچر فروغ پانے لگتا ہے اور لوگوں کو میٹھے سچ سننے کا چسکا لگ جاتا ہے اور جیسے ہی ان روبوٹ مائنڈ لوگوں کے سامنے کوئی کڑوا سچ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس بندے کو کافر یا احمدی جیسے ٹیگ لگا کر ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔ پیور برین اس معاشرے کو ہضم نہیں ہوتے، اسی چیز کا فائدہ ہمارے ”معاشرے کے روحانی تلقین بابے“ اٹھانے لگ پڑتے ہیں اس فہرست میں واصف علی واصف، بابا یحییٰ، اشفاق احمد، شہاب نامہ والی سرکار، سرفراز شاہ، احمد رفیق اختر اور سما ٹی وی والی سرکار قطب آن لائن جن کا نام بلال قطب ہے جو اپنے پروگرام کو ”ون مین اتھارٹی“ کے طور پر چلاتے ہیں۔

موصوف دنیا کے تمام مسائل پر اپنی ذاتی ایکسپرٹ رائے رکھتے ہیں اور یہ دوسرے روحانی باباؤں کی طرح جدید گیٹ اپ پینٹ شرٹ پہنتے ہیں اور کلین شیو ہیں اپنی ماہرانہ ایکٹنگ اور لینگویج کی بدولت لوگوں میں کافی مقبول ہیں۔ مقبولیت کے تمام رجحانات سے واقف ہیں اور اپنے کارڈ بروقت اور بڑی حاضر دماغی سے کھیلتے ہیں۔ جدید رجحانات کا دفاع بڑے زور و شور سے کرتے ہیں مگر رجعت پسندی کا دامن بھی نہیں چھوڑتے یعنی وکٹ کے دونوں طرف کھیل کر اپنے مقاصد بڑے اچھے سے پورے کر لیتے ہیں لیکن ایسے کایاں ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے کہ وہ کس وقت کیا کردار نبھا رہے ہوتے ہیں اور اپنی پروڈکٹ کی تشہیر بڑی چالاک دماغی سے کرتے ہیں۔

خود کو جدید ذہن ثابت کرنے کے لئے مختلف مکتبہ فکر کے مولویوں روحانی شخصیات اور درباروں کے گدی نشینوں سے کراس ٹاک کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ریشنل مائنڈ ہیں، کہیں سننے اور دیکھنے والوں کو کو یہ گمان نہ گزرے کہ یہ تو ان کے گھر کا ہی بندہ ہے۔ گونگے بہرے اندھے اور کینسر کا علاج صرف ایک پھونک سے کردینے کا دعوی کرنے والے مالا علی کردستانی پاکستان کے دورے پر تھے تو سید بلال قطب نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے موصوف کو اپنے پروگرام میں بلا کر خوب آؤ بھگت کی اور آخر میں کردستانی سے اپنے سلسلہ روحانی میں بیعت قبول کر لینے کی درخواست بھی کر ڈالی جس کا مان کردستانی جی نے کچھ اس طرح سے رکھا کہ بلال قطب کے گال پر ایک ”روحانی چمی“ جڑ دی۔

اس کے علاوہ یہ قطب آن لائن والے موصوف مائیک اٹھا کر مختلف درباروں کا رخ کر لیتے ہیں اور وہاں کے گدی نشینوں سے گفتگو کر کے ان کے آستانوں کی خوب تشہیر کرتے ہیں موصوف کے پروگرامز کے نام بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ قطب صاحب عوامی رجحان کو بڑے اچھے سے جانتے ہیں۔ نام کچھ اس طرح سے ہیں ”رزق اور شادی کے لیے وظیفہ“ ، ”قبر کے عذاب سے کیسے بچا جا سکتا ہے“ اور ”بد نظری کیا نقصان کر سکتی ہے“ ، ”خوابوں کی تعبیر اور ان کی حقیقت“ اور ”زائرین کو درگاہوں سے کیا حاصل ہو سکتا ہے“ ۔

ان باتوں کے لیے مولوی منبر کا سہارا لیتے ہیں اور قطب جی ٹی وی سکرین کا، مگر کبھی کبھار قاسم علی شاہ کے مجمع میں بھی گیان بانٹنے چل پڑتے ہیں۔ یہ سارے روحانی تلقین بابے ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں جو روحانی پراسراریت کا جالا بن کر لوگوں کو اپنی سحر بیانی کے جال میں پھنسا لیتے ہیں اور لوگوں کو اپنے مسائل کے بارے میں عقلی طور پر سوچنے نہیں دیتے۔ یہ لوگ اپنی سحر بیانی کی بدولت معاشرے کو ایک سمت میں دھکیل کر اپنے بچوں کو مغرب کے جدید اداروں سے تعلیم دلوا کر وہیں ان کو آباد کرنے میں ترجیح دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو قطعی طور پر اس منجن کا شکار نہیں بننے دیتے جسے وہ مشرق میں روحانیت کے نام پر بیچ کر شہرت کما رہے ہوتے ہیں۔

مولانا مودودی کے فرزند کا وہ کلپ ابھی بھی یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ”ہمارے ابا نے کبھی بھی ہمیں اپنی جماعت کا حصہ نہیں بننے دیا اور ہمیں جماعتی سرگرمیوں سے بہت دور رکھا“ جناب یہ ہے وہ ذہنیت جو اپنے اور اپنے بچوں کے لئے وہ سوچتی ہے جس کا چلن مہذب معاشروں میں ہوتا ہے مگر جذباتی عوام کو کنویں کا مینڈک بننے پر مجبور کر کے ان سے خوب شہرت کماتے ہیں اس طرح کے لوگوں نے ہماری قوم کے دماغوں پر محنت کر کے ان کی ذہنیت کچھ اس طرح کی بنا ڈالی ہے کہ انہیں مکس جھوٹ اور منافقت زبانی بہت اچھی لگنے لگی ہے، کڑوے اور ٹھوس سچ و حقائق سننے کو بالکل تیار نہیں ہوتے اور اگر کوئی اظہار کرنے کی کوشش کرے تو وہ ان کی نظر میں گمراہ ٹھہرتا ہے۔

تقدس کے لبادے ہمیشہ وہی لوگ پہنتے ہیں جو لوگوں کا ذہنی استحصال کرتے ہیں، جنہیں لوگوں سے دست بوسی کروانے میں لطف آتا ہے، جنہیں دائرہ بنا کر اپنے پیروکاروں کے درمیان میں بیٹھ کر ”روحانی جلیبیاں“ بنانے کا چسکا ہوتا ہے اور ان کا ایک ہاتھ روحانی تھپکی دینے کے لئے پیروکار کی کمر پر ہوتا ہے اور دوسرا ہاتھ اسی سے نذرانہ بٹورنے میں مصروف ہوتا ہے۔ اگر کھلے لفظوں میں کہیں تو ان روحانی بابوں کی بقا ہی انہی چونچلوں میں ہے، آج کل ادبی میلوں کا سیزن ہے حال ہی میں ایک اچھا لکھنے والی ادیبہ نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں وہ لکھتی ہیں کہ ”بابا یحییٰ سے ملاقات ہوئی۔ تب سے پریشان ہوں کاش اصلی والے بابا یحییٰ سے نہ ملی ہوتی تو شاید متاثر ہو جاتی اور کم از کم ایک بھرم تو قائم رہتا”۔ یہ وہی بابا یحییٰ ہیں جو اکثر کالے لباس اور دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں میں 3، 3 انگوٹھیاں چڑھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ لبادے دراصل منافقوں کی مجبوری ہوتے ہیں کیونکہ ان لبادوں سے وابستہ لاکھوں لوگوں کے جذبات جڑے ہوتے ہیں اور وہ اسی جذباتیت کا فائدہ اٹھا کر خود کو قطب دوراں اور شہنشاہ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز کر کے پراسرار اور بے معنی زبان میں گفتگو کر کے لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتے رہتے ہیں۔

روحانیت کا چورن پاکستان کی مارکیٹ میں بہت بکتا ہے اور اسی ڈیمانڈ کے مطابق یہ جدید روحانی بابے اپنی پروڈکٹ ٹی وی سکرین کے ذریعے یا اپنی کتابوں کی صورت میں بیچتے رہتے ہیں۔ جہاں اس قسم کے مداری ہو وہاں صاف گوئی اور بغیر لگے لپٹے لہجہ میں بات کرنے والے پرویز ہود بھائی اور امر جلیل جیسے لوگوں کی کون سنے گا؟ کیونکہ ہمیں کھرا سچ سننے کی عادت نہیں ہے۔ جب ہر جگہ ملاوٹ چل رہی ہو تو پیور برین ایسے معاشروں میں راندہ درگاہ ٹھہرتے ہیں اور لعنتیں ڈالنے والے بھی یہی معاشرتی منافق ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments