کتابیں، سموسے اور جلیبیاں


نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ جس قوم میں تعمیر، تعلیم اور صحت کے شعبے منافع بخش کاروبار بن جائیں، تو پھر اس قوم کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

ابھی ایک فہرست نظر سے گزری۔ دنیا کی مشہور اور تحقیق پر کام کرنے والی پہلی پانچ سو جامعات میں، پاکستان کی کوئی جامعہ شامل نہیں ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً دو ارب ہے۔ صرف کچھ مسلم ممالک کی 16 جامعات اس فہرست میں جگہ بنا پائی ہیں۔

ایران، ملیشیا، ترکی، انڈونیشیا اور سعودی عرب کی کچھ جامعات اس فہرست میں شامل ہیں۔ یعنی وہ ملک جن کے باشندے کبھی پاکستانی جامعات میں پڑھنے آتے تھے، وہ اب ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ کچھ مسلم ممالک اور انڈیا کی جامعات کے نام یہ ہیں جو پہلی پانچ سو میں جگہ بنا پائی ہیں۔

انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس 61
تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس 161
اصفہان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی 216
یونیورسٹی آف تہران 226
انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، دہلی 227
انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، مدراس 230

اور اس کے بعد کچھ ملیشیا اور سعودی عرب کی کنگ فہد اور کنگ عبدل عزیز یونیورسٹی بھی ٹاپ پانچ سو جامعات میں شامل ہے۔ پاکستان کا نمبر انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی سے شروع ہوتا ہے جو 720 نمبر پر ہے اور پھر NED یونیورسٹی جو 816 نمبر پر ہے۔ وہ ملک جو آبادی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے اس کا کوئی تعلیمی ادارہ پہلی پانچ سو جامعات میں جگہ نہ بنا پایا۔

دنیا کے سب ٹاپ تعلیمی ادارے کافروں کے ہیں۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کا بجٹ پاکستان کے بجٹ سے زیادہ ہے۔ اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طالب علم دنیا کی بڑی اور بہترین کمپنیوں کے مالک ہیں۔

امریکہ کے یہی تعلیمی ادارے اصل میں اس کے سپر پاور کی بنیاد ہیں۔ صرف جامعات ہی نہیں، نچلی سطح کے اسکولوں سے لے کر بارہویں جماعت تک، تعلیم کا نظام انتہائی موثر ہے۔ اس معاشرے میں بھی کئی خامیاں ہیں لیکن یہ لوگ تعلیم، تحقیق اور سائنس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہاں کا نصاب جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ چھوٹے بچوں کو شروع سے ہی ان کی پسند کے مطابق ان کے مضمون دے دیے جاتے ہیں۔ جو طالب علم جامعات نہیں پہنچ پاتے، ان کے لئے تین سال کے ڈپلومہ کورسز میں داخلہ لینے کا دروازہ کھلا ہوتا ہے اور وہ یہ ڈپلومہ کر کے کوئی بھی ہنر میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ بارہویں جماعت تک تعلیم مفت ہے اور اس مفت تعلیم کا معیار ایسا ہے کہ جیسے آپ اپنے بچے کو کسی انتہائی مہنگے بورڈنگ اسکول میں پڑھا رہے ہوں۔ یہی حال دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔

یہاں یہ رجحان نہیں ہے کہ یہ علاقہ یا صوبہ ری پبلکن پارٹی کا ہے یا ڈیموکریٹک پارٹی کا۔ یہاں توجہ کا مرکز بچے ہوتے ہیں جن کو اچھی تعلیم دینا یہ کافر اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اخلاقی ذمہ داری بھی۔ یہ کافر اصل میں ہمارے نبی ﷺ کی بات پر عمل کر رہے ہیں کہ علم حاصل کرو، ماں کی گود سے لے کر قبر کی آغوش تک۔

دوسری طرف ہمارے سرکاری اسکولوں میں بھینس اور بکرے باندھے جاتے ہیں۔ پچھلے بارہ سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی جماعت نے کون سی جامعات بنائی، کتنے اسکول کھولے گئے اور تعلیم پر کتنے روپے خرچ کیے گئے، اس کا آپ کو پتا ہے۔ یہی حال دوسروں صوبوں اور جماعتوں کا ہے۔ اسکولوں میں بیٹھنے کے لئے کرسیاں، پنکھے، پینے کا پانی اور باتھ روم کچھ میسر نہیں ہے۔ حکمرانوں کے بچے اگر برطانیہ اور امریکی اسکولوں میں پڑھتے ہوں گے تو غریب عوام کے بچوں کی کیوں فکر کریں گے۔

ہم لوگ صرف اپنا سوچتے ہیں۔ ضمیر فروشی اور بے حسی اب ہمارے اندر خون کی طرح رواں دواں ہے۔ روسی مفکر اور ادیب لیو ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ اگر آپ اپنا درد محسوس کرتے ہیں تو آپ زندہ ہیں لیکن اگر آپ دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں تو آپ انسان ہیں۔

ہمارے اہل اقتدار لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں ایک دن مرنا بھی ہے۔ ساری جماعتوں نے بشمول آرمی کے، برسوں حکومت کی ہے لیکن کسی نے تعلیم پر توجہ نہیں دی۔ صرف دس سالوں میں دبئی، قطر، مراکش، چین، تائیوان، جنوبی کوریا اور سنگاپور جیسے دیگر ممالک تعلیمی میدان میں کہاں سے کہاں نکل گئے اور ہم اس بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے نصاب کی کتابوں میں عورت کے سر پر دوپٹہ کیوں نہیں ہے۔

نفرت پر مبنی نصاب اور کتابیں پڑھا کر ہم آنے والی نسلیں تباہ کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک کا طبیعیات کا پہلا اور اب تک کا آخری نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسداں ڈاکٹر عبدالسلام اپنے ملک کی محبت میں روتا روتا لندن میں فوت ہو گیا۔ ہمارے معاشرے میں کوئی نامور اور اعلی تعلیم یافتہ شخص پیدا بھی ہو جائے تو ہم اس کو رسوا کر کے باہر بھیج کر ہی دم لیتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے کیا سچ نہیں کہا تھا کہ کون مسلم، کون کافر، کون جنتی، کون جہنمی، کیوں نہ یہ اختیار خدا کو واپس کر دیا جائے۔

جب تک ہم جدید طرز پر اپنا تعلیمی معیار بہتر نہیں کرتے، نئی نسل کو معیاری تعلیم میسر نہیں کرتے، نصاب کو تبدیل نہیں کرتے اور اپنے لوگوں کو دوسروں سے نفرت کی بجائے محبت کا سبق نہیں دیتے، اس وقت تک کسی بہتری کی امید رکھنا بے سود ہے۔

جس ملک میں لائبریری ڈھونڈنے سے ملتی ہو اور کتابیں پڑھنے کا رجحان ختم ہو جائے تو وہاں پھر سموسوں اور جلیبیوں کو کتابوں کے صفحات پھاڑ کر گاہک کو دیا جائے، تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments