کیا صدر عارف علوی کو مستعفی ہوجانا چاہیے؟



تحریک انصاف کے لوگ کپتان کی قیادت میؔ قوم کو ہائی مورال گراؤنڈ پر جا کر کھیلنے کی دلپذیر کہانیاں سنایا کرتے تھے لیکن اب اقتدار میں آ کر انہوں نے وی وی آئی پی کلچر چھوڑا ہے اور نہ ہی وزیراعظم ہاؤس کو وعدے کے مطابق یونیورسٹی بنایا ہے اور نہ ہی گورنر ہاؤسز کی بلند دیواریں گرائی ہیں، ہاں چند روز گنے چنے اور منتخب عوام کو ان ہاؤسز کی سیریں کروا کر بات گول کردی اور اب 50,50 کاروں میں ان کے کانوائے چلتے ہیں، ریڈ کارپٹ بچھتے ہیں، کبھی یہ عوامی منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں لگانے پر چلا چلا کر کہا کرتے تھے کہ

”تمہارے باپ کا پیسہ ہے جو اپنا نام ان تختیوں پر لکھواتے ہو“

اور اب عمران خان سمیت سب ہی یہ تختیاں روزانہ کی بنیاد پر لگاتے پھرتے ہیں اور میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ان کی کہانیاں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہتیں اور دوستوں کو بغیر قابلیت کے اعلی ترین عہدے عنایت بھی کیے جا رہے اور اعتراض کرنے والے کو یہ لوگ اپنے سوشل میڈیا کے بد زبانوں کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن اس وقت ہم بات کریں گے صدر عارف علوی کے حوالے سے جنہوں نے حال ہی میں اپنے بیٹے اواب علوی کی گورنر ہاؤس کراچی میں منعقدہ ایک بزنس تقریب میں ہنستے مسکراتے شرکت کی جس پر قانونی ماہرین اور جمہوری انداز فکر سے جڑے لوگ خاصے ناراض ہو رہے ہیں کہ یہ کھلم کھلا ”مفادات کا تصادم“ ہے اور اس پر انہیں فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے کیونکہ جنوبی کوریا میں کشتی الٹنے پر وہاں کے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کی باتیں یہی لوگ کیا کرتے تھے لیکن اپنی باری ان کے ریلوے منسٹر ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ

”میں ٹرین میں چلا رہا تھا“ ؟

صدر عارف علوی کو یہ مشورہ دینے سے پیشتر یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ عارف علوی کی دھرنا دنوں میں ایک آڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ عمران خان کو ایک ”خوشخبری“ سنا رہے تھے اور اس آڈیو پر بھی بڑے لے دے ہوئی تھی لیکن اس سے بھی پہلے عارف علوی کی ایک وڈیو آئی تھی جس میں وہ زبردستی ٹریفک بند کروا رہے تھے، شہر میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور ان کا اس وقت انداز کسی مافیائی کردار سا نظر آ رہا تھا۔ پھر موصوف صدر بنے تو ان کی طرف سے کچھ مشاعروں پر خاصی خطیر رقم لٹانے کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا اور اب گورنر ہاؤس کراچی میں ان بیٹے اواب علوی کی بزنس تقریب میں ان کی شرکت پر سب اعتراض کر رہے ہیں تو ان کے بیٹے اواب علوی کے بقول یہ تقریب جان بوجھ کر یہاں رکھی گئی تھی کیونکہ کسی دوسری جگہ ایسا کرنے سے لوگوں کو مسائل ہوسکتے تھے اور ہم نے باقاعدہ گورنر ہاؤس کی جگہ لینے کا معاوضہ ادا کیا ہے اور اس کی رسید بھی ان کے پاس ہے لیکن کیا صدر عارف علوی کو اس میں شرکت کرنی چاہیے تھی؟

اس پر اواب علوی نے کہا کہ وہ ایک باپ کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے اور ان کی یہ بات خاصی مضحکہ خیز ہے کیونکہ وہ اب ایک صدر ہیں اور ان کی یہ حیثیت ہی استعمال کرنے پر اعتراض ہو رہا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہے جب افتخار چودھری چیف جسٹس تھے تو ان کے بیٹے ارسلان افتخار نے بھی چیف جسٹس ہاؤس کا ایڈریس لکھا ہوا تھا جو کہ بزنس کے مفادات کے لیے استعمال کرنے پر خاصا شور مچایا گیا تھا۔ صدر عارف علوی کے انداز سے لگ رہا ہے کہ وہ اس تنقید سے زیادہ پریشان نہیں ہیں کیونکہ ان کی اور ان کی فیملی کا جواب بجائے شرمسار ہونے اور معذرت خواہانہ ہونے کے جواز فراہم کرتا ہوا ملتا ہے جو کہ خاصی افسوس ناک بات ہے اور ان کے ماضی کے ہائی مورال گراؤنڈ پر جا کر دعوے کرنے کے بالکل برعکس ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس حرکت پر وزیراعظم کو مکمل چپ لگی ہوئی ہے جو ثابت کرتی ہے کہ انہیں اپنے دوستوں کی ایسی حرکتوں سے کوئی ایشو نہ ہے حالانکہ انہوں نے جس تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اس میں ایسی حرکات سے اجتناب کا درس ملتا ہے جو کہ اب وہ بالکل بھول چکے ہیں۔

یاد رہے کہ ”علوی ڈینٹل“ کی جس تقریب پر یہ ہنگامہ ہو رہا ہے اس کی ویب سائیٹ پر صدر عارف علوی کا نام بطور ممبر ابھی درج ہے اور یہ بات بھی قانونی و اخلاقی لحاظ سے درست نہ ہے لیکن یہاں کسے پرواہ ہے؟ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صدر عارف علوی کے صاحبزادے اواب علوی نے کچھ عرصہ قبل ملک کے ممتاز صحافیوں کے حوالے سے ایک لسٹ سوشل میڈیا پر ڈال کر ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا جس میں ملک کے ممتاز، اینکروں، صحافیوں، کالم نگاروں اور رپورٹروں پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے تھے کہ یہ لوگ ملک ریاض سے پلاٹ اور پیسے لیتے رہے ہیں اور یہ لسٹ باقاعدہ بحریہ ٹاؤن کے لیٹر پیڈ پر تیار کی گئی تھی اور جن پر الزام لگائے گئے ان میں حامد میر، سہیل وڑائچ اور حسن نثار سے بڑے میڈیا کے لوگ بھی شامل تھے اور بعد میں جب ان میڈیا کے لوگوں نے احتجاج کیا تو عارف علوی نے کہا تھا کہ

”میرے بیٹے اواب علوی نے یہ یہ لسٹ سوشل میڈیا سے اٹھائی تھی“

حالانکہ یہ لسٹ ان کے ذہن اقدس کی کارستانی تھی اور سب کچھ سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا کہ عمران خان بھی ملک کے بڑے گروپ جنگ پر بھارتی فنڈنگ سے چلنے کے جھوٹے الزامات لگائے تھے جن کا ثبوت وہ کبھی نہ دے سکے تھے۔

خیر اب صدر عارف علوی کو سوچنا چاہیے کہ وہ اخلاقی و قانونی لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں؟ اول تو انہیں اس روز ہی گھر چلے جانا چاہیے تھا جب ان کا جسٹس فائز عیسی کے خلاف بھیجا صدارتی ریفرنس عدالت عالیہ نے اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے وہ چاہیں تو اب بھی یہ کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments