جلیلہ حیدر اور نوعمری کی شادی


عزیزی جلیلہ حیدر نئی نسل کے ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں دیکھ کر بے اختیار وہ گیت گنگنانے کا جی چاہتا ہے، چھوٹی سی اک لڑکی ہوں پر کام کروں گی بڑے بڑے!

ہمارے تعفن زدہ معاشرے میں ان کے سوال ہلچل بھی مچاتے ہیں اور سوچنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔حال ہی میں ان کا ایک سوال فیس بک پر دیکھا، لڑکیوں کی نوعمری میں شادی کے پیچھے کیا عوامل کام کرتے ہیں؟

سوچنے بیٹھے تو ہمیں بھی کچھ یاد آ گیا۔

“وجیہہ و شکیل شہزادہ دور دیس سے آیا اور پریوں جیسی حسین، گڑیا سی نازک ، چاند کو شرماتی شہزادی کو دلہن بنا کر ساتھ لے گیا۔ پھر دونوں اپنے محل میں ہنسی خوشی رہنے لگے”

یہ ہیں وہ کہانیاں جو لڑکیوں کی اکثریت پڑھتے یا سنتے ہوئے شباب کی عمر کو پہنچتی ہے۔ ان کی اٹھان اور تربیت ایسے خطوط پر کی جاتی ہے کہ بچپن سے ہی شہزادے کے خواب دیکھیں، شادی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھیں اور ہر وقت یہ دعا کرتی رہیں کہ انہیں کوئی پسند کر کے دلہن بنا کے لے جائے اور پھر ستے خیراں!

“ میں نے تو بیٹی کے جہیز کے لئے چیزیں جمع کرنی شروع کر دی ہیں” ( بیٹی کی عمر دس برس ہے)

“ ابھی گاڑی نہیں چلا سکتیں تم، شادی کے بعد سیکھنا”

“ شادی کے بعد مرضی چلانا، ابھی نہیں”

“ پڑھ لیا کافی ہے، اب نوکری شوہر کی مرضی سے کرنا”

“ یہ بناؤ سنگھار شادی کے بعد کرنا”

یہ ہیں وہ ضابطے جن کے تحت لڑکی کو زندگی گزارنے کا کہا جاتا ہے۔ ان کے کچے ذہنوں کو تعلیم اور معاشی خود مختاری کی بجائے شادی کے خواب دکھائے جاتے ہیں, جس میں بچیوں کو چوڑیوں، مہندی، ابٹن، ڈھولک اور جھلملاتے ملبوسات میں لپٹی بدصورتی دیکھنے ہی نہیں دی جاتی۔

کیا کبھی لڑکوں کے لئے یہ سب کہا یا سوچا جاتا ہے؟ کماؤ پوت کی اصطلاح تو سبھی نے سن رکھی ہو گی نا، کیا کماؤ پتری کہا کبھی کسی نے؟

دل گرفتگی میں اپنے اماں ابا یاد آ گئے۔

آپس کی بات ہے، سکول کالج کے زمانے میں ہمیں اپنی اماں پہ خوب غصہ آتا ۔ ان کی وجہ سے ہم ایسی بہت سے مواقع پہ جان محفل بننے سے رہ جاتے جب ہماری دوستیں اٹھلا اٹھلا کر بتا رہی ہوتیں کہ ان کی اماں نے کونسی چیز خرید کر جہیز کے صندوق میں محفوظ کر دی ہے۔ رشتے والی آنٹیاں کیسے ان کے گھر چکر لگا رہی ہیں، ان کی مائیں بر ڈھونڈنے کے لئے کنوؤں میں بانس ڈلوا رہی ہیں، کیسے اماں ابا سب رشتے داروں کے ہونہار سپوتوں پر نظر گاڑے بیٹھے ہیں۔

یقین جانیے ہمارے پاس سنانے کے لئے کچھ بھی نہ ہوتا، بس ہونقوں کی طرح سب کی شکل دیکھا کرتے۔ کبھی کبھی دل میں سوچتے ، یا تو ہماری اماں پھوہڑ ہیں یا لاپروا۔ تین تین بیٹیاں گھر میں موجود ہوں اور ایسی بے فکری۔ نہ جہیز کا بکس، نہ خرانٹ آنٹیوں کی آمدورفت، نہ بننے سنورنے کی تاکید اور نہ ہمارے نصیب کے ڈر سے آہ و بکا۔

کبھی کبھی کوئی سہیلی پوچھ بھی لیتی، تم بھی بتاؤ نا ۔ جب ہمارا جواب نفی میں ہوتا تو سب کہتیں، یہ چھپا رہی ہیں، ورنہ ایسے کونسے ماں باپ ہوں گے جنہیں بیٹیوں کی شادی کی فکر نہ ہو۔

 اماں سے جب بھی ان کی سہیلیاں استفسار کرتیں تو وہ بڑی شان بے نیازی سے جواب دیتیں، سب ہو جائے گا جب وقت ہو گا، ابھی تو ان کے پڑھنے کے دن ہیں۔ پڑھ لکھ کر اپنے پاؤں پہ کھڑی ہو جائیں، ہمیں تو یہی چاہئیے۔

ابا سے کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ سب بخوبی واقف تھے کہ ابا عورت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور بیٹیوں کے کیا کیا خواب پال رکھے ہیں۔ ابا کے لئے لڑکی کی تعلیم لڑکے سے زیادہ اہم تھی۔

ہماری آپا کالج جانا شروع ہوئیں تو اماں کے بھائی نے نہ جانے کس رو میں خط لکھ مارا کہ لڑکیوں کو اس قدر پڑھا کر کیا کرنا ہے؟ تعلیم اتنی ہی ہونی چاہئیے کہ خط لکھ پڑھ سکیں۔ اماں خط پڑھ کر کچھ خاموش ہو گئیں کہ میکے سے عزیز از جان بھائی نے بھیجا تھا مگر ابا کی بات تو سو سنار کی اور ایک لوہار کی ہوا کرتی تھی۔ اماں کو کہنے لگے، جواب میں لکھ دینا کہ آپ کے مشورے کا شکریہ مگر یہ شوکت کاظمی کی بیٹیاں ہیں، کالج بھیجنے کا فیصلہ بھی وہی کریں گے، آپ اپنا گھر دیکھیے۔

اماں کے بہن بھائیوں کی بیٹیاں اسی طریق پر بیاہی گئیں۔ ہماری ہم عمر کزنز ہمارے ایف ایس سی کے زمانے سے رخصت ہونا شروع ہوئیں۔ شادی کے موقع پر احساس تفاخر ان کے چہرے پہ لکھا ہوتا اس پیغام کے ساتھ کہ دیکھو میں تو چن لی گئی اس انتخاب میں۔ کئی ایک تو چوری چوری ہماری طرف دیکھتیں کہ کہیں رشک و حسد سے ہمارے چہرے کے رنگ تو نہیں بدل رہے۔

جب تک ہم میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بن کر نکلے، وہ دو تین بچوں کی مائیں بن چکی تھیں۔ جب تک ہم نے کیئریر کی منزلیں طے کیں ، وہ نانی دادی کے مقام پر فائز ہو چکی تھیں۔ اب اپنی ہم عمر کزن کی مثالیں دے کر گھر کی بچیوں کو سمجھایا جانے لگا کہ اس جیسی بننا۔

سب کو زندگی نے اپنے رنگ دکھائے تھے، ایک علیحدہ انداز میں ۔ لیکن زندگی میں سر اٹھا کر وقار سے جینے کا قرینہ صرف تعلیم یافتہ اور معاشی آزادی رکھنے والیوں کے حصے میں آیا ۔

آج اپنی بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں ہم بھی اتنے ہی بے غم ہیں۔ پوچھنے والوں کے جواب میں شان بے نیازی بھی اماں والی ہے کہ بھئی ہو ہی جائے گی شادی اگر ان کا جی چاہا تو اور نہ جی چاہا تو بھی غم نہیں۔ زندگی کی جنگ لڑنے کے سبھی بنیادی ہتھیار تو ہیں ان کے پاس۔

آج سمجھ میں آیا ہے کہ ماؤں کا اس ضمن میں اختیار کردہ دانستہ پھوہڑ پن، لاپروائی اور باپ کا معاشرے کے سامنے سنگ آہن کی طرح کھڑے ہونے کا ڈھنگ کیسے ان کی بیٹیوں کی زندگی سنوار دیتا ہے اور یہی عزیزی جلیلہ کے سوال کا جواب ہے۔

جنہوں نے جنا ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ انہیں دنیا کے بازار میں تیر و تفنگ سے لیس کر کے اتاریں، اپنے بیٹوں کی طرح ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments