اب یہ نظام بدلے گا


اس وقت پورے ملک میں سماجی، معاشی اور سیاسی صورت حال بڑی خراب نظر آتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔ اپنے بیگانے کا فرق قریباً ختم ہو گیا ہے۔ معیشت کی ناؤ بری طرح سے ہچکولے لے رہی ہے۔ اگرچہ اسے سنبھالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں مگر وہ نہیں سنبھل رہی۔ اسی طرح سیاست ہے جس میں گویا ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریب عوام کو اپنے بیانات، نعروں اور دعووں سے متاثر کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی کے پاس بھی کوئی پروگرام نہیں ان کا کوئی منشور بھی ہوتو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ لیتی ہیں تو شرائط بھی ان کی ہی ہوتی ہیں جنہیں ہر صورت ماننا ہوتا ہے لہٰذا زندگی کے تمام شعبے سخت متاثر ہیں۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتے ہی چلے جار ہے ہیں۔ کاروباری لوگ بھی پریشان ہیں۔ لگتا ہے ملک میں ایک انارکی پھیل چکی ہے۔ ادھر انتظامی ادارے پہلے کی طرح اپنی من مرضی کر رہے ہیں انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ وہ عوام کے خادم ہیں انہیں جو تنخواہیں ملتی ہیں عوام کے ٹیکسوں سے ہی ملتی ہیں مگر وہ اس پہلو کو نہیں سمجھ رہے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیے جار ہے ہیں۔

ان کے اس رویے کی بنا پر بھی معاملات خراب ہو رہے ہیں یعنی اگر تھانے، پٹوار خانے اور دیگر سرکاری محکمے جن میں بیٹھے کلرک سے لے کر افسران تک اپنا فرض دیانتداری سے ادا کرین تو یقیناً صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کا عمل دخل ہماری معاشی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے اور ہم اپنے منصوبوں پر من و عن عمل درآمد نہیں کر سکتے مگر یہ بھی تو ہے کہ ہماری کرتا دھرتا انہیں یہ بتانے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ فلاں چیز عوام کے مفاد میں نہیں، فلاں ہمارے ملک کے لیے ہر اعتبار سے غیر موزوں ہے، اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔

موجودہ حکومت نے تو حد کر دی وہ جو عالمی مالیاتی ادارے کہہ رہے ہیں کیے جا رہی ہے اس نے کہا کہ ریاستی بینک کو خود مختار بنایا جائے تو اس نے اس کی حامی بھر لی۔ اسے یہ کیوں نہیں معلوم بینک کسی کو جواب دہ نہیں ہو گا۔ اس سے صرف اور صرف آئی ایم ایف کے ڈائریکٹرز ہی کچھ پوچھ سکیں گے اور وہ قسطوں سے متعلق ہی پوچھیں گے عوام کے مفاد میں نہیں۔

اس صورت میں غربت، بے روزگاری اور دوسرے مسائل میں خوفناک اضافہ نہیں ہو جائے گا مگر ہمارے حکمران بس تقریریں کیے جا رہے ہیں اور نہیں سوچتے کہ عام آدمی کی زندگی کس قدر متاثر ہو رہی ہے لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں عوام کو ریلیف اور بنیادی حقوق دینے انتظامی اداروں کو ٹھیک کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اب عوام ایک نئی سیاسی جماعت کی خواہش کرنے لگے ہیں اور ان کی یہ خواہش پوری ہو رہی ہے کہ ”االلہ اکبر تحریک“ کے نام سے ایک سیاسی جماعت سامنے آ چکی ہے یہ جماعت ماضی میں عوامی خدمت کے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ جہاں حکومت کے کارندے نہیں پہنچ پاتے وہاں اس کے ارکان نے لوگوں کو مشکلات سے نجات دلائی۔

ہمارے ایک دوست ہوتے ہیں ریاض احمد احسان جو شاعر ہیں اور ادیب بھی۔ مذکورہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے علاقے میں طویل عرصے سے عوام کی خدمت کرتے چلے آرہے ہیں بتا رہے تھے کہ یہ جماعت آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر جو کر سکتی ہے وہ ضرور کرے گی پہلے بھی اس نے ایک فلاحی تنظیم کی صورت میں بہت کچھ ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کیا آئندہ بھی وہ اپنا مشن جاری رکھے گی۔ ان کے مطابق بدعنوانوں، قبضہ گیروں ملاوٹ کرنے والوں، مصنوعی مہنگائی سے اپنی تجوریاں بھرنے والے عناصر، سینہ زوروں، ظلم و زیادتی کرنے والوں اور ذخیرہ اندوزوں کا پوری طرح سے محاسبہ کرے گی اور یہ نہیں دیکھے گی کہ کون کیا ہے؟

ریاض احمد احسان ایک سلجھے ہوئے نوجوان ہیں وہ ظلم کے سخت خلاف ہیں۔ انہیں عوام کے مسائل سے مکمل آگاہی ہے اور وہ انہیں حل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ کیسے ہو گا اس بارے ان کے پاس باقاعدہ پلان ہے۔ مافیاز جنہوں نے عام آدمی کی سانسیں بے ترتیب کر رکھی ہیں انہیں راہ راست پر کیسے لایا جائے اس کا انہیں ادراک ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر ہیں تو ایک اچھے انسان بھی ہیں ان کا حلقہ احباب بڑا وسیع ہے۔ ادیبوں، صحافیوں، دانشوروں اور شاعروں میں یکساں مقبول ہیں۔

وہ اٹھتے بیٹھتے یہی کہتے ہیں کہ اس ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا سخت ترین احتساب ہونا چاہیے۔ بیورو کریسی جس کو نجانے غریب عوام ایک آنکھ نہیں بھاتے اسے صحیح معنوں میں عوام کا خدمت گار بنانا ہو گا اور یہ کام وہ کر کے دکھائیں گے۔ وہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ ایک سو انچاس میں متحرک ہو چکے ہیں لہٰذا اب جب عوام تینوں بڑی جماعتوں کو آزما چکے ہیں تو نئی جماعت کو بھی آزما لینا چاہیے۔ ہمیں امید واثق ہے کہ جو خرابیاں اور بگاڑ پیدا ہو چکے ہیں، انہیں ٹھیک کرنے میں یہ نئی جماعت ضرور کامیاب ہو جائے گی۔

رہی بات آئی ایم ایف وغیرہ کی تو ریاض احمد احسان نے اس حوالے سے اطمینان دلایا کہ ان کی جماعت ایسے منصوبے، پالیسیاں اور پروگرامز رکھتی ہے جو ملک کو خود کفالت کی شاہراہ پر گامزن کر دیں گے لہٰذا اسے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

بہرحال یہ بات خوش آئندہ ہے کہ اس نئی جماعت ”االلہ اکبر تحریک“ نے نوجوانوں کو اپنی جماعت میں شامل کر کے روایتی طرز سیاست کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ ریاض احمد احسان ایسے عملی و فکری نوجوان ہی ہمیں مسائل کے بھنور سے باہر نکال سکتے ہیں کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں اب تک کی روایتی سیاسی جماعتوں نے ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ عوامی دولت لوٹ کر یورپی ممالک میں لے گئے اور یہاں غربت و افلاس نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے :

کوئی اندر سے مجھ کو کہتا ہے
میری نفرت بجا ہے شاہوں سے

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ حکمرانوں نے اس نظام کو درست کرنے کی جانب قدم نہیں بڑھائے اور مسلسل دروغ گوئی سے کام لیتے رہے۔ واریاں لیتے رہے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہے تا کہ عوام کسی تیسری سیاسی جماعت کی طرف نہ دیکھ سکیں اور ان کو ہی منتخب کرتے رہیں اور وہ ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالتے رہیں اس طرح یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری رہا ہے اور اس وقت زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ عام آدمی کو انصاف ملتا ہے نا سکون قلب کو مافیاز نے ہر شعبے کو اپنے قابو کر لیا ہے مگر کب تک اب یہ نظام بدلے گا یہ سماج بدلے گا کہ امید کی دنیا میں ایک نئی سویر طلوع ہوا چاہتی ہے :

اتنی مقدار سے بن سکتا تھا تازہ سورج
جس قدر خون چراغوں کو جلانے میں لگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments