انڈیا میں کسانوں کا احتجاج: وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے کسانوں کی تحریک نے کیا سیاسی مشکل پیدا کی؟

شکیل اختر - بی بی سی اردو، دلی


کسان احتجاج
انڈیا کی حکومت نے تینوں زرعی قوانین واپس تو لے لیے ہیں لیکن یہ قوانین وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے بہت بڑی سیاسی مشکل بن گئے ہیں۔

انڈیا کی حکومت نے 29 نومبر کو پارلیمان میں تینو‏ں متنازع زرعی قوانین اسی تیزی سے کسی بحث و مباحثے کے بغیر واپس لیے جس طرح وہ سوا برس قبل ان قوانین کو لے کر آئی تھی۔

وزیر اعظم مودی کی شناخت ایک سخت اور طاقتور حکمران کی ہے۔ وہ اپنے فیصلوں اور کہی ہوئی باتوں کے سلسلے میں جھکنے اور پیچھے ہٹنے کے قائل نہیں ہیں لیکن ایک برس سے جاری کسانوں کی تحریک کے آگے وزیر اعظم مودی کو جھکنا پڑا۔

کسانوں کی تحریک سے وابستہ سیاسی کارکن نوکرن نت کہتی ہیں کہ ’پچھلے کچھ برسوں میں حکومت اور میڈیا نے یہ بیانیہ تخلیق کیا تھا کہ مودی کے سامنے کوئی اپوزیشن نہیں۔‘

’اگر مودی نہیں تو کون‘ کے بیانیے کے عام لوگ بھی قائل ہو گئے تھے۔ عوام انڈیا کی اپوزیشن کو ایک فرد، ایک چہرے میں تلاش کر رہے تھے۔ اس تحریک نے یہ ثابت کر دیا کہ اپوزیشن ملک کی عوام میں، اجتماعی تحریکوں میں ہے۔‘

متنازع قوانین کے خاتمے کے بعد بھی کسانوں نے اپنی تحریک ختم نہیں کی۔ اب یہ کسان فصل کی کم سے کم معاون قیمت کی آئینی ضمانت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ اب حکومت سے مذاکرات کی تیاریاں کر رہے ہیں اور اپنے مطالبات پر قائم ہیں۔

کسانوں کے کئی رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت ان کے درمیان پھوٹ ڈالنا چاہتی ہے۔

بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین واپس لینے سے انڈیا میں نجکاری اور اقتصادی اصلاحات کے عمل کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں 70 فیصد سے زیادہ کسان چھوٹی زمینوں پر کام کرتے ہیں جو ان کی کفالت اور خوشحالی کے لیے ناکافی ہیں۔

کسان احتجاج

اقتصادی ماہرین کے مطابق نئے زرعی قوانین کا مقصد ان کسانوں کو کھیتی باڑی سے ہٹا کر دیگر بہتر روزگار میں لگانا تھا۔ اس سے ان کی زمینیں بھی خالی ہو جاتیں جو بڑے بڑے کسان خرید لیتے یا پھر وہ صنعتی اور شہری ترقی میں کام آتیں۔

حکوت کا کہنا تھا کہ اس نے یہ قوانین کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور ان کے حالات بہتر کرنے کے لیے بنائے تھے۔ حکومت کے مطابق ان قوانین کے ذریعے اوپن مارکیٹ کا نظریہ متعارف کروانا چاہتے تھے جہاں کسان اپنی فصل کے بہتر دام حاصل کر سکتا تھا تاہم حکومت کے مطابق کسان ان قوانین کی رو سمجھ نہ سکے۔

ان قوانین کے ختم کیے جانے سے کسان بہت خوش ہیں لیکن انھیں حکومت پر بھروسہ نہیں۔ ان کی لڑائی طویل ہے۔

ہریانہ کے محبوب نگر گاؤں کے ایک کسان ایوب خان کہتے ہیں کہ ’تینوں قوانین تو حکومت نے واپس لے لیے لیکن اب حکومت فصل کی ایک مقررہ قیمت کی ضمانت کا قانون بنائے۔ اس کے بغیر کسانوں کو فائدہ نہیں ہو گا۔ حکومت جب تک ہماری مانگ تسلیم نہیں کرتی ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

ایک اور کاشتکار محد عمر سید کا کہنا تھا کہ ’کسان تو مر رہا ہے۔ سرکار اگر کسانوں کو دبائے گی تو پھر سرکار کیسے بچے گی۔ کسان اور عام آدمی ہی تو سرکار بناتے بگاڑتے ہیں۔‘

انڈیا کی کسان یونین کے رہنما اور احتجاجی تحریک کے اہم رہنما راکیش ٹکیت کہتے ہیں کہ ’کم سے کم مقررہ قیمت یا ایم ایس پی اس تحریک کا مرکزی نکتہ ہے۔ اس سے سب کو فائدہ ہو گا۔ حکومت کو سبزیوں، دودھ اور ماہی گیری کی صنعت کے لیے بھی ایم ایس پی مقرر کرنی چاہيے۔‘

ٹکیت کا کہنا ہے کہ حکومت آنے والے ریاستی انتخابات میں ممکنہ نقصان کے ڈرسے پیجھے ہٹی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کسانوں کی تحریک نے طاقتور مودی حکومت کو فیصلہ بدلنے پر کیسے مجبور کیا؟

زرعی قوانین: کیا مودی حکومت شہریت کے قانون سی اے اے اور این آر سی کو بھی واپس لے گی؟

کسانوں کا احتجاج مودی کی توقعات سے بھی زیادہ منظم نکلا؟

کسان احتجاج

سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کہتے ہیں کہ ’چند ہفتے قبل مختلف اسمبلیوں کی 30 نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات ہوئے تھے۔ ان میں بی جے پی کو صرف سات نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ مغرور مودی حکومت صرف انتخابی شکست سے ڈرتی ہے۔‘

آئندہ فروری میں اتر پردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں کسانوں کی تحریک کے سبب ان ریاستوں میں بی جے پی کے خلاف فضا بن رہی تھی۔

تحزیہ کاروں کا خیال ہے کسانوں کے خلاف ایک برس تک انتہائی سخت پوزیشن لینے کے بعد ان قوانین کو اچانک واپس لینے کا وزیراعظم مودی کا فیصلہ ان ریاستوں میں اسمبلی انتخات کے مد نظر ہی کیا گیا ہے۔

بی جے پی رہنما اور کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں نے مودی جی سے کہا کہ یہ زرعی قوانین غلط ہیں۔ اگر انھیں واپس نہیں لیا گیا تو اتر پردیش اور پنجاب کے انتخابات میں بی جے پی کا نقصان تو ہو گا ہی، مودی سنہ 2024 کا پارلیمانی انتخات بھی ہار جائیں گے۔‘

اطلاعات ہیں کہ بی جے پی اور ار ایس ایس کے کارکن اتر پردیش، اتراکھنڈ، گوا اور پنجاب سے حکومت کو متنبہ کر رہے تھے کہ کسانوں کی تحریک اگر جاری رہی تو ان ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

وزیراعظم مودی کے سامنے کوئی چارہ نہیں تھا۔ اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں بی جے پی بھاری اکثریت سے اقتدار میں ہے۔ یہاں بی جے پی کے لیے جیتنا سیاسی اور نفسیاتی اعتبار سے انتہائی ضروری ہے۔

مغربی اتر پریش کے کسان احتجاجی تحریک میں پیش پیش تھے۔ گزشتہ انتخابات میں اس خطے میں بی جے پی نے یکطرفہ کامیابی حاصل کی تھی۔ اس بار یہ صورتحال بدل سکتی ہے۔

نوکرن نت کہتی ہیں کہ ’بی جے پی کو گزشتہ سات برس میں یہ لگنے لگا تھا کہ وہ ناقابل شکست ہے۔ مودی حکومت کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ یہ تحریک بی جے پی کے منھ پر ایک طمانچہ ہے۔ یہ بی جے پی کے زوال کی شروعات بھی ہو سکتی ہے۔‘

ان قوانین اور کسانوں کی تحریک نے بی جے پی کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ آئندہ مہینوں کے انتخابات میں ہو جائے گا لیکن اس تحریک نے یہ ضرور بتایا ہے کہ جمہوریت میں کوئی رہنما کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ ناقابل شکست نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments