الیکشن کمیشن، ای وی ایم اور آن لائن ووٹنگ: کیا پاکستان میں اگلے انتخابات نئے قوانین کے تحت ہو پائیں گے؟

اعظم خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


الیکشن
'دیکھیں، دیکھیں۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ کمیٹیاں بنا دی ہیں، لا پر بھی، لاجسٹکس پر بھی، پروکیورمنٹ پر بھی۔ تمام سفارشات ہم الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے، اس کے بعد الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہتا ہے۔ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہم۔‘

جب پاکستان کی الیکشن کمیشن کے حکام سے پوچھا گیا کہ آیا آئندہ انتخابات پارلیمان سے منظور شدہ تازہ قوانین کی روشنی میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروائے جائیں گے یا پھر پرانے طرز پر ہی منعقد ہوں گے، تو ان کا جواب یہ تھا۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ادارہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے خلاف نہیں ہے لیکن آئندہ عام انتخابات میں یہ مشینیں ووٹنگ کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں یا نہیں، اس بارے میں انھوں نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔

پاکستان کی پارلیمان کی قانون سازی اپنی جگہ مگر الیکشن کمیشن ابھی اپنی تین کمیٹیوں کی مدد سے اس بات کا تعین کرے گی کہ یہ قانون قابل عمل بھی ہے یا نہیں۔ اگر یہ قابل عمل ہے تو پھر اس پر عملدرآمد کے لیے کس قسم کے اقدامات اٹھانے ضروری ہوں گے۔

حکام کے مطابق ایک کمیٹی کی ذمہ داریوں میں پرانے قوانین سے موجودہ قوانین کا تقابلی جائزہ لے کر ان میں ترامیم کی سفارشات تیار کرنا شامل ہے۔

حکام کے مطابق دنیا میں کہیں بھی مکمل تجربات کے بغیر انٹرنیٹ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابات نہیں کیے گئے اور نہ ہی یہ سارا انتخابی عمل ایک دن میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس نے گذشتہ ماہ اپوزیشن کے اعتراضات اور واک آؤٹ کے باوجود انتخابات میں رائے شماری کے لیے ای وی ایم کے استعمال کا ترمیمی بل منظور کیا، جس کے تحت سنہ 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

پہلی یہ کہ رائے دہی کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ہوگا دوسری یہ کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق ملے گا۔

اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے ہوں گے جبکہ 90 لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بذریعہ انٹرنیٹ ووٹ ڈالنے کا حق ملے گا جبکہ اپوزیشن رہنماؤں نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

وزیر اطلاعات نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر آئندہ انتخابات نئے قوانین کے تحت نہ منعقد ہوئے تو پھر ایسے میں الیکشن کمیشن کی فنڈنگ بھی روکی جا سکتی ہے۔

الیکشن کمیشن

کیا آئندہ انتخابات میں ای وی ایم مشینیں استعمال ہو سکیں گی؟

بی بی سی نے آئندہ انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال سے متعلق الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکریٹری ظفر اقبال حسین اور ڈائریکٹر جنرل محمد خضر عزیز سے تفصیلی گفتگو کی۔

ظفر اقبال کے مطابق الیکشن کمیشن ای وی ایم کے استعمال کے خلاف نہیں ہے اور پارلیمان کی جانب سے قانون سازی کے بعد کمیشن نے آئندہ انتخابات میں ان مشینوں کے استعمال کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے تین تکنیکی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔

ان کے مطابق پلاننگ کمیٹی سیکریٹری الیکشن کمیشن کی سربراہی میں بنائی گئی ہے، جس کا کام الیکشن میں استعمال ہونے والی تمام ٹیکنالوجیز، ‘انٹرنیشنل سٹینڈرڈز’ اور ‘بیسٹ پریکٹسز’ کا جائزہ لینا ہے۔

ان کے مطابق اس کمیٹی کا کام الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز ووٹنگ کا طریقہ کار طے کرنا، پالیسی بنانا، مشین بنانے کی سٹریٹیجی، اس کا تکنیکی اور فکشنل اعتبار سے جائزہ لینا اور آئندہ کی ضروریات کی نشاندہی کرنا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹنگ کے لیے جو عمل درکار ہے اس کی نشاندہی اور عملدرآمد کے طریقہ کار سے متعلق سفارشات بھی یہی کمیٹی دے گی۔

الیکشن کمیشن کی دوسری کمیٹی ان مشینوں پر آنے والے اخراجات کا جائزہ لے گی۔ یہ کمیٹی ان مشینوں کی پائلٹ ٹیسٹنگ، میکنزم اور ان کی سٹوریج سے متعلق سفارشات تیار کرے گی۔

جبکہ تیسری کمیٹی قانونی امور جیسی مشکلات کے تعین کے لیے موجودہ قوانین کی روشنی میں سابقہ قوانین کا جائزہ لے گی اور موجودہ قوانین اور قواعد میں ترامیم کے لیے اپنی تجاویز اور سفارشات مرتب کرے گی۔

جن ممالک سے ای وی ایم خریدنی ہیں وہ خود ان کا استعمال نہیں کرتے

الیکشن کمشین کے ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن ٹیکنالوجی محمد خضر عزیز نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کو جس قسم کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں درکار ہوں گی وہ ایسے ترقی یافتہ ممالک سے خریدنی ہوں گی جو انھیں خود استعمال نہیں کرتے۔ ان کے مطابق جرمنی، فرانس اور جنوبی کوریا اس وقت ایسی بہترین مشینیں تیار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان مشینوں کو سکیورٹی کے نکتہ نظر سے اس طرح تیار کیا جائے گا کہ ان کا انٹرنیٹ سے رابطہ منقطع رہے تاکہ کوئی نتائج میں ردوبدل نہ کر سکے۔

خضر عزیز کے مطابق ان میں ایسا سسٹم نصب ہو گا کہ اگر کوئی ان مشینوں کو لے بھی جائے تو پھر ان کا پتا چلایا جا سکے۔ ان کے مطابق ‘ان مشینوں کے ساتھ اضافی بیٹریاں بھی درکار ہوں گی تاکہ ان کا کام متاثر نہ ہو۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ جن ممالک میں یہ مشینیں استعمال ہو رہی ہیں وہاں انتخابات مختلف مراحل میں ہوتے ہیں، تو کیا پاکستان میں ان مشینوں سے ایک دن میں نتائج حاصل کیے جا سکیں گے، تو حکام کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب بھی الیکشن کمیشن کی تشکیل کردہ کمیٹیاں ہی تلاش کریں گی۔

حکام کے مطابق ابھی بھی نتائج کی تیاری میں پرانے طریقے پر عمل کیا جائے گا جس کے تحت فارم 45 تیار کیا جاتا ہے۔

ای وی ایم کے استعمال میں کس قسم کے چیلنجز درپیش ہوں گے؟

الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق آر ٹی ایس ایک سیٹ اپ کا نام تھا جس کے تحت پریزائیڈنگ افسر نے آر او کو ایک تصویر فوری طور پر بھیجنی تھی۔

ان کے مطابق آر ٹی ایس ایک سافٹ ویئر کا نام تھا جس سے متعلق ہم نے نادار سے مدد لی تھی۔ اس آر ٹی ایس کا ایک بیک اپ سسٹم بھی تھا اور اصل سسٹم الیکشن کمیشن کے پاس ہی تھا۔

ڈی جی آئی ٹی کے مطابق سب سے بڑا چیلنج تو وقت ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کون سی مشین کتنی کارآمد ہے، خاص طور پر ہمارے ملک کی ضرورت کو کون سی مشین پورا کرے گی۔

ٹریننگ اور آگاہی دو بڑے اہم چیلنجز ہیں تاکہ ان مشینوں کے ذریعے انتخابات ممکن بنائے جا سکیں۔

ان کے مطابق ابھی یہ فیصلہ ہونا بھی باقی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی کیسے حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ کیا وہ سفارتخانے آئیں گے یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے وہ یہ سب کر سکیں گے۔ ہر طریقے کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔

ان کے مطابق یہ دیکھنا ہو گا کہ کس طریقے میں رسک کم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ڈالر بھیجنے والے ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر سکتے‘

حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کس بنیاد پر استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے؟

’لوگوں کو اے ٹی ایم مشین چلانے کا پتا نہیں وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیسے استعمال کریں گے؟‘

ان کے مطابق مزید ٹیسٹنگ اس وجہ سے ضروری ہے تاکہ بین الاقوامی معیار پر انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے۔ ان کے مطابق ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ان مشنیوں میں ٹیکنالوجی کون سی استعمال ہو گی، ان مشینوں میں فیچرز کیا ہوں گے۔

‘ملک کی صورتحال اور جغرافیے کے مطابق مشینیں تیار کی جائیں گی۔’

کیا ہر پولنگ بوتھ پر یہ مشینیں رکھیں جائیں گی، اس سوال پر الیکشن کمشین کے حکام کا کہنا تھا کہ جتنے پولنگ بوتھ اور پولنگ سٹیشن ہوں گے ان پر مشینیں درکار ہوں گی تاہم ان کی قیمت کا تخمینہ لگانا ابھی باقی ہے۔

الیکشن

ماضی میں الیکشن کمشین کے ان مشینوں پر اعتراضات کی وجہ کیا بنی؟

الیکشن کمیشن کے ای ویم مشینوں پر اعتراضات سے متعلق خضر عزیز کا کہنا تھا کہ ان اعتراضات کا تعلق ابھی قانونی سازی سے متعلق نہیں تھا بلکہ وہ الیکشن کمیشن کی وہ رپورٹ تھی جو 2017 کے بعد مختلف انتخابات میں ڈیڈھ سو مشینوں کے تجربات کے بعد نتائج سامنے آئے تھے۔

پائلٹ پروجیکٹ کے لیے ڈیڈھ سو ای وی ایم مشینیں، سو بائیومیٹرک مشینیں لی تھیں جن پر پائلٹ ٹیسٹ کر کے رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کرائی تھی تا کہ اس پر بحث ہو، ان کے فیچرز پر بات ہو اور پھر اس کی روشنی میں قانون سازی کی جائے۔ ‘ان مشنیوں پر بار بار تجربات کرنے پڑتے ہیں تا کہ وہ بہترین نتائج دیں اور انتخابی عمل شفاف انداز میں مکمل ہو سکے’۔

ان کے مطابق ای وی ایم کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جا کر بازار سے خرید لیں، اس کے لیے ضرورت کے مطابق تبدیلیاں متعارف کرانا پڑتی ہیں۔

ان کے مطابق ٹیکنالوجی پر بار بار تجربات کرنے کی ضرورت ہوتی ہی اور آئندہ انتخابات کے لیے بھی ای وی ایم مشنیوں کی ٹیسٹنگ بھی ضروری ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments