سوچوں کی ہجرت


ہجرت ہے کیا؟ اچھے کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانا۔ میرا بیانیہ یہ ہے کہ سوچوں کی ہجرت تقدیر کا رخ متعین کرتی ہے اور بدلتی بھی ہے۔ ہر جسمانی ہجرت کے پس منظر میں پہلے سوچ کی ہجرت ہی تو ہوتی ہے۔ ہجرت حبشہ جسمانی ہجرت تھی مگر اس کے پیچھے دراصل سوچ کی ہجرت تھی کہ مٹھی بھر مسلمانوں کے لئے مکہ میں زندگی مشکل ہو رہی تھی، پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوچا یہاں سے ایسی جگہ بھیجا جائے جہاں کچھ راحت دل و جان تو ہو۔ یہ تدبیر بدلنے کی سوچ بھی تھی، تقدیر کا رخ بدلنے کے لئے۔

ہجرت مدینہ جسمانی ہجرت تھی مگر اس کے پس منظر میں سوچ بھی ہجرت کی ہی تھی کہ پتھر دل اپنوں نے اپنے دل اتنے تنگ کرلئے کہ ان کی سوچ کے علاوہ کچھ اور سوچنے والوں کے لئے وہاں جگہ ہی نہ بچی۔ سو اشرف البشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے صحابہ کرامؓ سمیت مکہ سے ہجرت کرنا پڑی۔

برصغیر پاک و ہند کی ہجرت شاید دنیا کی سب سے بڑی افرادی ہجرت تھی مگر تھی یہ بھی سوچوں کی ہجرت۔ اقبال کا الگ شناخت کا خواب اور دو قومی نظریہ دراصل تھی تو سوچوں کی ہجرت۔ صدیوں اکٹھے رہنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اب اکٹھے رہنا ممکن نہیں۔ سو جسمانی ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ ریاست مدینہ کیوں مختصر عرصہ میں مثالی ریاست کے روپ میں سامنے آئی سوچوں کی ہجرت نے ایسا کیا۔ سوچوں کی ہجرت انفرادی طور پر اور قومی سطح پر ذہنی، جسمانی، روحانی اور مادی ترقی کے راستے کھولتی ہے۔

تاریخ ان لوگوں سے بھری پڑی ہے جو ناکامی کے خوف سے زندگی ضائع کر بیٹھے، ان کی زندگی اگر مگر میں گزر گئی۔ پچھتاووں میں گزر گئی کہ یہ نہ کیا، وہ نہ کیا۔ گویا زندگی ملی۔ صلاحیت بھی ملی۔ مگر زندگی اور صلاحیت دونوں کو خوف کی یہ سوچ نگل گئی کہ اگر ناکام ہو گیا تو کیا ہو گا؟ یہ کیوں نہ سوچا کہ میں نے کامیاب ہونا ہے۔ یہی سوچوں کی ہجرت ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ پیغمبر کیوں بھیجے گئے؟ تو مجھے اپنا آپ ہی یہ جواب دیتا ہے کہ سوچ بدلنے کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو تسخیر کائنات کا اختیار اور صلاحیت دی تھی جو کب تسخیر ہو سکتی ہے؟ جب سوچ بدلے گی۔ ہماری سوچ کیا ہے؟ جو مقدر میں ہے مل جائے گا۔ سوچ تبدیل کیوں نہیں کرتے کہ بھرپور محنت، کام سے محبت اور بہترین کوشش کر کے اپنے مقدر میں اضافہ کرنا ہے۔ کبھی بے عمل اور باعمل اکٹھے ہوسکتے ہیں؟ نہیں ناں! تو پھر باعمل کیوں نہ بنیں؟ رب تعالیٰ ہم سب کو دونوں جہانوں میں کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ دعا بھی کرواتا ہے تو دونوں جہانوں میں خیر و برکت کی۔ یہ کامیابی اور خیر و برکت کب ہوگی؟ جب سوچ بدلے گی۔

ایک اور مثال دیکھیں۔ دو طالب علموں کو ایک ہی موضوع پر کچھ لکھنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ ایک سوچتا ہے کیوں لکھوں؟ دوسرا سوچتا ہے کیسے لکھوں؟ کیوں والے کو استاد نظرانداز کرے گا کہ یہ کمفرٹ زون کا بندہ ہے، اس کی سوچ محدود ہے، اس پر وقت ضائع نہ کیا جائے۔ کیسے والے کی سوچ دراصل رہنمائی لینے والی سوچ ہے جو اسے استاد سے ملے گی یہ بھی سوچوں کی ہجرت ہے۔

ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ یہ سوچیں ’میں نے ہی تو کرنا ہے۔ ہم دوسروں کے بارے میں ہمیشہ منفی سوچتے ہیں۔ مثبت سوچ کر دیکھیں، نتیجہ بالکل مختلف ہو گا۔ رب تعالیٰ یہ جو غور و فکر کرنے کو کہتا ہے، دراصل سوچوں کی ہجرت کا ہی تو راستہ ہے، جسے ہم اپناتے نہیں اور رونا قسمت کا روتے ہیں۔ اگر ہم سمجھیں تو زندگی کی آزمائشیں بھی سوچوں کی ہجرت کی طرف کا ایک راستہ ہے۔ آزمائش میں ریسپانس دیا تو نیا راستہ ملے گا۔

ری ایکٹ کیا تو مایوسی ملے گی۔ کہتے ہیں ناں کہ زندگی میں No کرنا سیکھیں۔ آئیے! ہم اپنی منفی سوچ کو No کر دیں، اپنی سوچ میں صرف ایک ہی تبدیلی لے آئیں کہ رب تعالیٰ نے تسخیر کائنات کے لئے بطور اشرف المخلوقات میرے ذمے جو کام لگایا ہے میں اسے شاندار طریقے سے انجام دوں۔ یہی سوچوں کی ہجرت ہے۔ ہم یہ نہ سوچیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ صرف یہ سوچیں میں کیا کر رہا ہوں؟ یہی سوچوں کی ہجرت ہے۔ ملک میں تبدیلی کے لئے بھی سوچ کی ہجرت ضروری ہے۔ ہجرت صرف اس سوچ کی کرنی کہ کسی اور نے نہیں میں نے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے، ہر فرد اس سوچ پر آ جائے تو یہی کامیابی ہے۔ ابھی اسی وقت اٹھیں اور ہر وہ کام جو اس سوچ کی وجہ سے شروع ہی نہیں کیا کہ ہو نہیں سکتا، میں کر نہیں سکتا۔ وہ کر گزریں۔ جب کر گزریں گے تو آپ سوچیں گے یہ ہجرت پہلے کیوں نہ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments