افغانستان میں بھوک سے مرتے بچے: ’دو ہفتوں میں پانچ نومولود بچوں کو مرتے دیکھا‘

ایلین جونگ، ٹام ڈونکن - بی بی سی ورلڈ سروس


افغانستان
اس تحریر میں تمام نام تبدیل کیے گئے ہیں۔

جوان عورت ڈاکٹر کے سامنے رو رہی تھی اور التجا کر رہی تھی کہ اسے اور اس کے بچے کو مار دیا جائے۔ افغانستان کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر نوری سی سیکشن کے ذریعے ایک خاتون کی ڈیلیوری کرنے والی تھیں کہ جب اس خاتون کا صبر ختم ہو گیا۔

ڈاکٹر نوری کے مطابق اس خاتون نے کہا کہ ’میں نہیں جانتی کہ میں کیسے زندہ رہ سکتی ہوں۔ میں کیسے ایک اور انسان کو جنم دے سکتی ہوں۔‘

ڈاکٹر نوری کے وارڈ میں خواتین اس قدر غذائی قلت کا شکار ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے انھیں ماں کا دودھ بھی میسر نہیں۔

ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ وارڈز میں اتنا رش ہے کہ انھیں لیبر روم تک پہنچنے کے لیے خود کو خون آلود دیواروں اور گندی چادروں کے درمیان حاملہ ماؤں کے بیچ سے بچ کر جانا پڑتا ہے۔

صفائی کرنے والے عملے میں سے بہت سے افراد نے مہینوں پہلے ہسپتال چھوڑ دیا کیونکہ وہ بغیر تنخواہ کام کر کے تنگ آ چکے تھے۔

ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں اتنا رش ہے کہ کبھی کبھی ایک بیڈ پر کئی خواتین ہوتی ہیں۔ نجلی کلینک بند ہو چکے ہیں اور افغانستان کے مرکزی ہسپتال میں معمول سے ہٹ کر تین گنا زیادہ خواتین آ رہی ہیں۔

ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ’میٹرنٹی وارڈ کسی بھی ہسپتال کا سب سے خوش ترین وارڈ ہوتا ہے لیکن افغانستان میں اب ایسا نہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ستمبر میں انھوں نے صرف دو ہفتے کے دوران پانچ نومولود بچوں کو بھوک سے مرتے دیکھا۔‘

افغانستان

’یہ جہنم جیسا ہے‘

افغانستان پہلے ہی شدید خشک سالی اور کئی دہائیوں کے تنازعات سے متاثر تھا لیکن طالبان کے قبضے نے ملک کو مزید تیزی کے ساتھ معاشی تباہی کی طرف بڑھا دیا۔

بین الاقوامی امداد کی جس نے کئی دہائیوں تک افغانستان کی معیشت اور اس کے صحت کے نظام کو سہارا دیا، اگست میں رک گئی۔

مغربی عطیہ دہندگان ادارے طالبان حکومت، جو خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق سے انکاری اور سخت شرعی سزاؤں کی دھمکی دیتی ہے، کے ذریعے رقم منتقل کرنے کے بارے میں اپنے خدشات کا ذکر کر چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق افغانستان بھوک کے بدترین بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ اس موسم سرما میں تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ بچوں کے غذائی قلت سے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ملک بھر میں بھوک کے شکار افراد کا علاج کرنے والے ہسپتال تباہی کے دہانے پر ہیں اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے تقریباً 2300 مراکز پہلے ہی بند ہیں۔

دور دراز علاقوں کے ڈاکٹروں کے مطابق وہ لوگوں کو بنیادی ادویات فراہم کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

افغانستان

دارالحکومت کابل میں بچوں کے ایک بڑے ہسپتال میں بدترین حالات دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ ہسپتال فی الحال 150 فیصد کی صلاحیت پر چل رہا ہے۔

ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صدیقی نے فنڈز میں کٹوتی کے بعد ستمبر میں اموات میں اضافہ دیکھا، جب ہر ہفتے 10 سال سے کم عمر کے چار بچے غذائی قلت یا اس سے متعلقہ بیماریوں، جیسے کھانے کی ناقص صفائی سے زہر آلود ہونے کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ کم عمر لوگ بحران کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہسپتال اتنی دیر سے پہنچتے ہیں کہ انھیں بچانا نا ممکن ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بچے ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے ہی مر رہے ہیں۔ ہم نے ایسے بہت سے بچے کھوئے ہیں۔‘

’اور جو وقت پر پہنچ جاتے ہیں ان کی مدد کے لیے بہت کم وسائل موجود ہیں۔ ہسپتال کو کھانے اور ادویات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ یہاں تک کے مریضوں کو سردی سے بچانے کے لیے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔‘

افغانستان

ہسپتال کو گرم رکھنے کے لیے کوئی ایندھن دستیاب نہیں تو ڈاکٹر صدیقی اپنے سٹاف کو کہتے ہیں کہ وہ درختوں کی سوکھی ٹہنیاں جمع کر کے لائیں تاکہ آگ جلائی جا سکے۔

’لیکن جب درختوں کی ٹہنیاں ختم ہو جائیں گی تو ہم آئندہ ماہ اور اس کے بعد کے وقت کے لیے پریشان ہیں۔‘

ڈاکٹر نوری کے میٹرنٹی وارڈ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بہت سے بچے انکیوبیٹرز میں مر گئے۔‘

’انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھنا بہت افسوس ناک ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

موبائل کی روشنی میں بچے کی پیدائش ’طالبان کی آمد کے بعد روز کی کہانی‘

افغانستان ’انسانی المیے‘ کے دہانے پر، ’اگلے چھ ماہ زمین پر جہنم کے ہوں گے‘

کیا طالبان افغانستان پر راج کرتے بھوک و افلاس کا خاتمہ کر پائیں گے؟

اور وہ کہتی ہیں کہ بجلی کے منقطع ہونے سے سرجری کروانے والے مریضوں پر بھی ممکنہ طور پر مہلک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

’ایک دن ہم آپریشن تھیٹر میں تھے کہ بجلی چلی گئی۔ سب کچھ رک گیا۔ میں بھاگ کر گئی اور مدد کے لیے پکارا۔ کسی کی گاڑی میں ایندھن تھا جو انھوں نے ہمیں دیا تاکہ ہم جنریٹر چلا سکیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جب بھی ہسپتال میں کوئی آپریشن ہوتا ہے ’میں لوگوں کو کہتی ہوں کہ جلدی کریں۔ یہ بہت زیادہ پریشان کن ہے۔‘

اس طرح کے مشکل حالات میں کام کرنے پر مجبور ہونے کے باوجود صحت کی دیکھ بھال کرنے والے افراد میں سے زیادہ تر کو اس وقت تنخواہ بھی نہیں دی جا رہی۔

افغانستان

صوبہ ہیرات کے ایک ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحمانی، جو کورونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، نے بی بی سی کو طالبان کی وزارت صحت کا 30 اکتوبر کا ایک خط دکھایا، جس میں ہسپتال کے سٹاف کو فنڈز ملنے تک بغیر تنخواہ کے کام کرنے کا کہا گیا تھا۔

منگل کے روز ڈاکٹر رحمانی نے تصدیق کی کہ انھیں ہسپتال کو بند کرنا پڑا کیونکہ فنڈز نہیں ملے۔ تصاویر میں دیکھا گیا کہ مریضوں کو سٹریچر پر ہسپتال سے باہر لے جایا جا رہا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا ہو گا۔

قریب ہی موجود منشیات کے عادی افراد کے علاج میں مہارت رکھنے والا ایک اور ہسپتال بھی اپنے مریضوں کی مناسب دیکھ بھال کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نوروز کہتے ہیں کہ ’ایسے مریض ہیں جنھیں بیڈ سے زنجیروں سے باندھنا پڑتا ہے یا ایسے مریض ہیں جنھیں ہتھکڑیاں لگانا پڑتی ہیں۔ ہمارے لیے ان کی دیکھ بھال کرنا بہت مشکل ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مناسب دیکھ بھال کے بغیر ہمارا ہسپتال ان مریضوں کے لیے بالکل جیل جیسا ہے۔‘

یہ ہسپتال بھی کم ہوتے عملے کی وجہ سے اب بند ہونے کے دہانے پر ہے اور اگر یہ بند ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر نوروز کو فکر ہے کہ آنے والی شدید سردی میں ان مریضوں کا کیا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں۔ وہ عام طور پر پلوں کے نیچے، کھنڈرات اور قبرستانوں میں ایسی جگہوں پر جا کر رہتے ہیں جو انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔‘

طالبان کے مقرر کردہ وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد نے نومبر میں بی بی سی فارسی کو بتایا کہ حکومت امدادی کوششوں کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

تاہم خیراتی اداروں کو شک ہے کہ ان کی دی گئی امداد صحیح مقاصد کے لیےاستعمال نہیں ہو گی۔

افغانستان

طالبان حکومت آنے کے بعد پہلی بار 10 نومبر کو اقوام متحدہ افغانستان کے صحت کے نظام میں براہ راست ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد دینے میں کامیاب ہوا۔ تقریباً 80 لاکھ ڈالر ہیلتھ ورکرز کی تنخواوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیے گئے۔

کئی دیگر بین الاقوامی عطیہ دہندگان ادارے بھی اقوام متحدہ کی پیروی کرنے کی امید کر رہے ہیں لیکن وقت ختم ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ’جلد ہی ہمارے پاس پینے کا پانی بھی نہیں ہو گا۔‘

سخت موسمی حالات کی وجہ سے جلد ہی پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک سے آنے والے امدادی سامان کے راستے بھی محدود ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ’جب بھی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ ہمارے ہسپتال سے جاتیں ہیں، میں ان کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ ان کے پاس پیسے نہیں، وہ کھانے کے لیے کچھ نہیں خرید سکتیں۔‘

ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ان کا اپنا خاندان بھی انتہائی مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ ’حتیٰ کہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود میرے پاس کافی کھانا نہیں۔ میں اسے نہیں خرید سکتی اور میری تمام بچت تقریباً ختم ہو گئی ہے۔‘

’مجھے نہیں معلوم کہ میں اب بھی کام پر کیوں آتی ہوں۔ میں ہر صبح اپنے آپ سے یہ سوال کرتی ہوں لیکن شاید وجہ یہ ہے کہ میں ابھی بھی بہتر مستقبل کے بارے میں پر امید ہوں۔‘

اس تحریر کے لیے اضافی رپورٹنگ علی ہمدانی، کاون خاموش، احمد خالد اور حفیظ اللہ معروف نے کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments