میرا جسم میری مرضی، اپنا کھانا اور بستر خود گرم کرو؟


انتہا پسندانہ رویے دنوں میں جنم نہیں لیتے بلکہ ان کے پیچھے صدیوں کا جبر ہوتا ہے، یہ نفسیاتی دباؤ کی صورت میں ایک لاوے کی طرح ذہنوں میں پکتے رہتے ہیں اور آخر میں ایک دن یہ دماغی ککر دباؤ کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ بعض اوقات ایسے اظہاریہ کی صورت میں سامنے آتا ہے جسے فوری طور پر معاشرہ قبول کرنے کا متحمل نہیں ہوتا اور ردعمل کے طور پر ایک ایسی فضا یا ماحول جنم لینے لگتا ہے کہ (کچھ تو روایت سے ہٹ کر ہونے جا رہا ہے ) یا اس انتہائی بے باکی والے بیانیہ کی وجہ سے بے حیائی یا بے شرمی بہت زیادہ پھیلنے لگے گی۔

اوپر عنوان میں جو جملے درج ہیں وہ فیمنزم موومنٹ کے نعرے ہیں جو اسی معاشرتی دباؤ کی وجہ سے خواتین ویمن ڈے پر پلے کارڈز کی صورت میں ڈسپلے کرتی رہتی ہیں۔ یہ مجموعی بیانیہ ہر اس خاتون کا ہے جو معاشرتی جبر کا شکار ہو کر سسکنے پر مجبور ہو چکی ہے، یہ ہر اس عورت کے دل کی آواز ہے جس کا شوہر شرابی، زانی اور اسی کی روزانہ مارپیٹ کرنے والا ہوتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ عورت کو ہی صابر شاکر رہنے اور اپنے شوہر کی ہدایت یا بہتری کے لیے دعا و مناجات کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

المیہ دیکھیے کہ وہ اپنے ظالم شوہر کے ظلم کا شکار ہو اور اس میں بہتری لانے کے لئے دعائیں بھی اسے ہی مانگنا ہوں گی۔ یہ ہر اس عورت کے سلوگن ہیں جو ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں مرد کو پورا اختیار ہے کہ اگر اس کو لڑکی پسند نہیں آئی یا ذہنی کیمسٹری نہیں بن پائی تو مرد فوری طور پر اپنا جابرانہ حق استعمال کرتے ہوئے تین بار طلاق کا لفظ استعمال کر کے اسے فوری اپنی زندگی سے بے دخل کر سکتا ہے مگر عورت کو خلع کے لیے جج کے حضور پیش ہو کر تفصیل بتانا پڑتی ہے پھر کہیں جا کر اس سے چھٹکارا ملتا ہے۔

یہ جملے ہر اس عورت کا بیانیہ ہیں جن کے وجود پر اسلامی نظریاتی کونسل میں بحث چل رہی ہوتی ہے مگر اس اجلاس سے عورت ہی غائب ہوتی ہے۔ کیا خواتین کے مسائل کو مرد عورتوں سے زیادہ جانتے ہیں؟ جو جس جنس کا ہوتا ہے بہتر طور پر وہی خود کی جنس کو سمجھ سکتا ہے اور رائے قائم کر سکتا ہے۔ میرے علم میں تو کم از کم یہ بات نہیں ہے کہ ملک کی تاریخ میں کبھی کوئی عورت اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن بنی ہو، کتنی مزے دار صورتحال بنتی جب ایک خاتون مردوں کے مسائل کو ڈسکس کر رہی ہوتی؟

کتنے المیہ کی بات ہے کہ عورت کو کبھی اتنی معاشرتی سپیس نہیں دی گئی کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن بن سکے یا کم از کم رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی سیٹ پر بیٹھنے کے قابل سمجھی جاتی۔ ایسا لگتا ہے عورت کم عقل ہونے کے ساتھ ساتھ (دیکھنے کی صلاحیت) بھی بہت کم رکھتی ہے اسی لئے تو اسے چاند دیکھنے پر مامور نہیں کیا گیا۔ اس سے بڑے المیہ کی بات یہ ہے کہ ہم نے آج تک کسی عورت کو مفتی یا فقیہ کے عہدے پر بیٹھ کر فتاوی جاری کرتے نہیں دیکھا اور ان کے جسمانی مسائل پر مرد مفتیان دھڑا دھڑ فتوے اور حتمی رائے دے رہے ہوتے ہیں۔

جب آپ ایک جنس کے متعلق حتمی رائے قائم کر دیتے ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے ناکارہ ہیں تو پھر آپ کو ایسے نعروں پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دکھ بھرے جملے ہر اس عورت کے ہیں جس کا اپنے وجود پر کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ مرد اسے بتاتا ہے کہ تم نے زندگی کس طرح سے گزارنی ہے؟ ماہواری کی بنیاد پر ہر مہینے اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ تم ناپاک ہو چکی ہو۔ کیا ناپاک ہونے کا یہ احساس ایک عورت کے ذہن میں اپنے وجود کے متعلق کس قسم کا تاثر پیدا کرتا ہے؟

آپ نارمل حالات میں کسی کو یہ جملہ کہہ کر دیکھ لیجیے آپ کو فوراً ردعمل کا پتہ چل جائے گا مگر عورت تو ہر ماہ اس تکلیف دہ عمل سے گزرتی ہے۔ دکھ کے ہر سانچے میں عورت کو ہی ڈھلنا پڑتا ہے مگر پھر بھی بے چاری سماجی پیمانوں پر پورا نہیں اتر پاتی۔ آپ تصور کیجئے ایسے پرندے کا جسے صدیوں سے ایک پنجرے میں قید کر کے رکھا ہوا ہو تو وہ رہائی ملنے پر اڑنا ہی بھول جاتا ہے بالکل اسی طرح عورت کو بھی جبری سانچے میں ڈھالنے کے لیے صدیوں مکروہ معاشرہ کا قیدی بنا کر رکھا گیا ہے۔

آپ ظلم کے پیمانوں کا صرف تصور کر کے دیکھ لیجیے اگر آپ کے سینے میں حساس دل ہے تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ ایک عورت جسے جائیداد میں آدھا حصہ دینے کا مستحق سمجھا جائے، عدالت میں بھی عورت کی گواہی کو آدھا تصور کیا جائے، لڑکا کی بجائے لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں طعنے بھی عورت کو ہی سہنا پڑیں تو سوچئے اتنی زیادہ شخصیت مسخ ہونے کے بعد اس کی ذہنی صحت پر کس طرح کے اثرات پڑیں گے؟ جس فزیکل لیبر سے عورت گزرتی ہے آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اب ہمارے معاشرتی پنڈتوں کا یہ کہنا ہے کہ چند عورتیں ہٹ دھرمی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرنے کے لئے ویمن ڈے پر سڑکوں پر نکل آتی ہیں اور انتہائی فحش قسم کے نعرے لگاتی ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ چند بے شرم قسم کی خواتین معاشرے میں بے راہ روی اور ہماری گھریلو خواتین کو بھی خراب کر رہی ہیں۔ حضور عرض یہ ہے کہ یہ چند خواتین ہی پورے معاشرے کی خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں ورنہ جس عورت کو آپ نے صدیوں سے دبا کر رکھا ہوا تھا وہ ایک دم سے ایسے نعرے کیسے لگا سکتی تھیں؟

جن معاشروں میں صاحبان منبر حوروں کے جسم کی ساخت کا تذکرہ بڑے فخر سے کریں اور جنتی مرد کی سیکس پاور کو سو گنا بتاتے پھریں تو ایسے معاشروں میں بالآخر ایسے ہی نعرے آپ کو سننے کو ملیں گے، ابھی گونج ذرا کم ہے والیم بڑھنے کا انتظار کیجئے۔ ہمیں اس قسم کے منظر سے پہلے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ حالات کا سامنا کرنے میں عورتوں میں بندوں سے زیادہ پوٹینشل ہوتا ہے۔ یہ آدھی عقل کی نہیں بلکہ پوری عقل کی مالک ہیں جنہیں آپ نے صدیوں سے بے وقوف سمجھ کر سائیڈ لائن کر رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments