تنہائی: عمر رسیدہ افراد کا ایک بڑا مسئلہ


جوزف سے میری ملاقات ایک پارک میں ہوئی تھی جہاں میں روز سیر کرنے جاتا تھا۔ یہ ملاقات پہلے واقفیت میں بدلی اور پھر آہستہ آہستہ ہم سیر کے ساتھی بن گئے۔ میں برطانیہ میں برمنگھم کے نواح میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنی بیٹی کے پاس مقیم تھا۔ بیٹی اور داماد بچوں کو سکول چھوڑ کر اپنے اپنے کام پر چلے جاتے اور میں گھر میں تنہا رہ جاتا۔ گھر کے نزدیک ہی ایک بہت بڑا پارک تھا۔ میں دس بجے تیار ہو کر نکلتا اور پارک کے دو تین چکر لگا کر کچھ دیر ایک بینچ پر بیٹھتا اور پھر گھر واپس آ جاتا۔

جوزف بھی وہاں واک کرنے آتا تھا۔ انگریزوں میں ایک بات میں نے اچھی دیکھی عورت ہو یا مرد سیر کرتے وقت آپ کے پاس سے گزرتے ہائے ہیلو لازمی کرتے ہیں یا مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا دیتے ہیں۔ ایسے ہی ہماری ہائے ہیلو ہوئی اور پھر کچھ ہی دن بعد ہم اکٹھا واک کرنے لگے۔ میری طرح اسے بھی کتابیں پڑھنے اور فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہم سیر کرتے ہوئے موسم پر، کتابوں پر، فلموں پر اور کبھی کبھار دنیا کی سیاست پر باتیں کرتے ہوئے دو گھنٹے پارک میں گزار دیتے۔

ایک دن اس نے مجھے اپنے گھر ڈرنک کی دعوت دی۔ میں نے اسے جب بتایا کہ میں ڈرنک نہیں کرتا تو اس نے کہا چلو پھر میں تمہیں کافی پلاتا ہوں۔ اس کا گھر پارک سے تھوڑی ہی دور تھا۔ اسی سالہ جوزف گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ اس کی بیوی تین سال پہلے اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔ دو بیٹیاں تھیں جو لندن میں رہتی تھیں اور چار چھ ماہ بعد ایک آدھ چکر لگا لیتی تھیں۔

اس کے اصرار پر اکثر اس کے ساتھ میں اس کے گھر چلا جاتا جہاں ہم کتابوں کی، فلموں کی باتیں کرتے۔ وہ بڑا حیران ہو تا کہ میں نے پاکستان میں رہتے ہوئے اتنی اچھی اچھی فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ تین ماہ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور میرا پاکستان واپسی کا وقت ہو گیا۔ میں نے اسے اگلے ہفتے پاکستان واپس جانے کی خبر سنائی تو وہ ایک دم اداس سا ہو گیا۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ کافی پیتا تھا لیکن اس دن اس نے اپنے لئے ڈرنک بنایا۔

رخصت ہوتے وقت میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، مسٹر شاہ! تمہارے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا، اب پھر وہی تنہائی ہو گی اور میں۔ تمہارے ساتھ واک کرتے ہوئے پچھلے ایک ماہ سے میں نے ڈپریشن کی گولیاں کھانا بند کر دی تھیں۔ پہلے میں ہفتوں کسی سے بات کرنے، کسی کے ساتھ بیٹھ کر ڈرنک کرنے کو ترستا تھا۔ میں خود بھی اس کی باتیں سن کر اداس ہو گیا اور بوجھل دل سے رخصت ہو کر گھر آ گیا۔

اس دفعہ برطانیہ آنے پر جیسے ہی قرنطینہ ختم ہوا تو میں حسب عادت سیر کرنے پارک میں چلا گیا۔ چار پانچ دن میری نظریں جوزف کو ڈھونڈتی رہیں لیکن وہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ کل میں اس کے گھر چلا گیا۔ دستک دی تو ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ پتہ چلا کہ جوزف آنجہانی ہو چکے ہیں۔ تنہائی یا پھر کرونا نے انہیں نگل لیا تھا۔

میرے ایک کولیگ بینک سے ریٹائر ہو کر تیرہ چودہ سال پہلے بچوں کے پاس برطانیہ سیٹل ہو گئے تھے۔ پچھلی دفعہ انہوں نے بہت اصرار کر کے مجھے بریڈ فورڈ اپنے پاس بلوایا۔ ان کی شریک حیات چند سال قبل وفات پا گئی ہیں۔ بچوں کی اپنے اپنے بچوں کے ساتھ اپنی مصروفیات ہیں اور وہ اب اکیلے ایک فلیٹ میں رہتے ہیں ہم نے تین دن اکٹھے گزارے۔ گھنٹوں پارکوں کی، شاپنگ سینٹرز کی سیر کرتے ہوئے دنیا جہاں کی باتیں کرتے ہوئے گزارے۔ تین دن بعد جب میں رخصت ہوا تو وہ بھی اداس ہو گئے۔ مجھے کہا کہ میں نے پچھلے تین سال میں اتنی باتیں نہیں کیں اور نہ ہی اتنا گھوما ہوں جتنا ان تین دنوں میں تمہارے ساتھ کی ہیں۔ میری تنہائی کا جمود ٹوٹ گیا ہے اور لگتا ہے کہ میری آدھی بیماریاں دور ہو گئی ہیں۔ میرے کولیگ اور جوزف جیسے بڑی عمر کے زیادہ تر لوگ اس وقت برطانیہ میں شدید تنہائی کا شکار ہیں۔

بوڑھے لوگ خاص طور پر تنہائی اور سماجی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں جو ان کی صحت پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ برطانیہ میں لاکھوں عمر رسیدہ افراد خاص کر پچھتر سال سے زیادہ عمر کے لوگ معاشرے سے کٹے ہوئے تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر سماجی طور پر الگ تھلگ ہو جاتے ہیں جیسے کہ بوڑھا ہونا یا کمزور ہونا، اپنے خاندان کا مرکز نہ رہنا، کام کی جگہ چھوڑنا، شریک حیات اور دوستوں کی موت یا معذوری، بچوں کا علیحدہ ہو جانا یا چھوڑ کر چلے جانا شامل ہیں۔

تنہائی ڈپریشن کی زیادتی، جسمانی صحت و تندرستی میں سنگین خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔ ایج یو کے ایک سروے کے مطابق انگلینڈ میں پچھتر سال سے زیادہ عمر کے بیس لاکھ سے زیادہ لوگ اکیلے رہتے ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ سے زیادہ بوڑھے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک ماہ سے زیادہ وقت تک کسی دوست، پڑوسی یا خاندان کے رکن سے بات کیے بغیر گزار دیتے ہیں۔

پچیس تیس سال پہلے تک برطانیہ کی ایشیائی کمیونٹی میں صورت حال کافی بہتر تھی لیکن اب ایشیائی باشندے بھی بڑی تعداد میں تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستانی تارکین وطن کے والدین بھی اسی صورت حال سے دوچار نظر آتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کے زیادہ تر لوگ ٹیکسی، ٹیک اوئے اور ریسٹورنٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں جن کے اوقات کار ایسے ہیں کہ ان کا گھر کے افراد سے ملنا بہت مختصر ہوتا ہے۔ گھر کی عورتیں عموماً ً بچوں کو سکول، مسجد لانے لے جانے کی مصروفیات میں اور شاپنگ میں الجھی رہتی ہیں۔

اس وجہ سے وہ اپنے عمر رسیدہ والدین کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے جس سے وہ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ موسم کی شدت کی وجہ سے وہ اکیلے باہر بھی نہیں جا سکتے۔ یہ المیہ صرف برطانوی معاشرے کا ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی عمر رسیدہ افراد ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ زیادہ تر بوڑھے والدین اولاد کی بے توجہی کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہیں۔

ہم سماجی طور پر رابطے کے لیے حیاتیاتی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ تنہائی ایک ایسا اشارہ ہے جو میں بتاتا ہے کہ ہمیں کسی کی ضرورت ہے۔ تنہائی سماجی رابطوں کے معیار یا مقدار کے درمیان ایک سمجھی جانے والی مماثلت ہے۔ بعض اوقات تنہائی محسوس کرنے کے لیے آپ کو تنہا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کسی رشتے دار، دوست یا کنبہ کے ساتھ وقت گزارتے وقت اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب آپ کے آس پاس لوگ آپ کی پرواہ نہیں کرتے یا آپ کو سمجھ نہیں پاتے۔ ایسے میں آپ تنہا رہنے کا انتخاب کرتے ہوئے بغیر کسی خوشی کے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تنہائی ایک عالمگیر انسانی جذبہ ہے جو ہر فرد کے لیے پیچیدہ اور منفرد ہے۔ چونکہ اس کی کوئی عام وجہ نہیں ہے۔ ہر فرد میں اس کی وجوہات اور ان کا علاج و روک تھام مختلف ہو سکتی ہے۔ ایک اکیلا بچہ جو اسکول میں دوست بنانے کی جد و جہد کرتا ہے اس کی ضرورتیں اس اکیلے بوڑھے مرد سے مختلف ہوتی ہیں جن کی شریک حیات کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ تنہائی ایک ذہنی کیفیت ہے جو انسانی رابطے کے خواہاں لیکن تنہا محسوس کرنے سے منسلک ہے۔ لوگ اکیلے ہو سکتے ہیں لیکن تنہا محسوس نہیں کرتے۔ کچھ لوگوں سے رابطے میں ہونے کے باوجود تنہائی کا احساس رکھتے ہیں۔ تنہائی کو ہم مختلف اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

(جذباتی تنہائی۔ ) جب کوئی ایسا شخص جن کے ساتھ آپ بہت قریب تھے وہ آپ کے پاس نہیں ہے یہ فرد آپ کی شریک حیات، آپ کا قریبی ساتھی یا قریبی دوست بھی ہو سکتا ہے۔

(سماجی تنہائی۔ ) جب آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس دوستوں، پڑوسیوں یا قریبی ساتھیوں کے وسیع تر حلقے کی کمی ہے۔

(حالات کی تنہائی۔ ) جسے آپ صرف مخصوص اوقات میں محسوس کرتے ہیں جیسے اتوار، کرسمس یا عید کے دن اپنے قریبی لوگوں کا ساتھ نہ ہونا۔

(عارضی تنہائی۔ ) یک احساس جو کبھی آتا ہے اور کبھی جاتا ہے۔ (دائمی تنہائی۔ ) جب آپ مستقل طور پر یا پھر زیادہ وقت تنہا رہتے ہیں اور تنہائی کو محسوس کرتے ہیں۔

اپنی تنہائی کو کم کرنے کے لئے بہت سے ایسے اقدامات ہیں جن سے ہم اپنی تنہائی کو بڑی حد تک کم کر سکتے ہیں۔

(٭) کمیونٹی سروس یا کسی اور سماجی سرگرمی میں حصہ لینے پر غور کریں جس سے آپ لطف اندوز ہوں۔ یہ لوگوں سے ملنے اور نئی دوستی اور سماجی تعلقات کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے۔

(٭) اکیلے لوگ اکثر مسترد ہونے کی توقع کرتے ہیں اس کی بجائے اپنے سماجی تعلقات میں مثبت خیالات اور رویوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں۔

(٭) معیاری تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ دینی چاہیے ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو آپ کے ساتھ ملتے جلتے رویوں، دلچسپیوں اور اقدار میں شریک ہوں۔

(٭) کسی گروپ میں شامل ہوں یا اپنا گروپ شروع کریں۔ اس کے لئے ایک میٹ اپ گروپ (ملاقاتی گروپ) بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں جہاں آپ کے علاقے میں بسنے والے ملتی جلتی دلچسپی رکھنے والے لوگ اکٹھے ہو سکیں۔ کمیونٹی کلب، بک کلب یا ورزش کی کلاس لینے پر غور کریں۔

(٭) موجودہ تعلقات کو مضبوط کریں۔ نئے روابط استوار کرنا ضروری ہے لیکن اپنے موجودہ تعلقات کو بہتر بنانا تنہائی کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments