لندن میں گورنر سرور چوہدری سے مسیحی وفد کی ملاقات


آج کل نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ حکومت نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ وزرا کو باہر جانے سے روک دیا ہے۔ کہ اگلے تین مہینے بہت اہم ہیں۔ مطلب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں برطانیہ کے مسیحی وفد اور اہم حکومتی سیاسی عہدیداران کی لندن میں گورنر سرور چوہدری سے ملاقات کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ منگل کے روز برطانیہ میں مقیم مسیحی وفد نے پاکستان سے آئے پنجاب کے گورنر سرور چوہدری سے پاکستان ایمبیسی لندن میں ملاقات کی۔ اقلیتی وفد نے اپنے مطالبات بھی پیش کیے ۔ مگر اس ملاقات کو خوش آئند قرار دینا قبل از وقت ہے۔ کیونکہ پہلے بھی ایسی کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں جو لا حاصل رہیں۔ تجربے در تجربے کرنے کے بعد مایوس تو آئی مگر اقلیتوں نے امید کا ہاتھ تھامے رکھا۔

لندن میں اکثر وزرا ء کی آمد ہوتی رہتی ہے۔ ایڈورڈز کالج پشاور کے ایشو پر وزیر خارجہ شاد محمود قریشی، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، اپوزیشن لیڈر مو لانا فضل الرحمن اور کئی اہم شخصیات نے وعدے کیے کہ ایڈورڈز کالج صرف اور صرف مسیحیوں کا ہے۔ مگر کیا ہوا؟ حکومت خیبر پشتونخواہ اس پر مکمل طور پر قابض ہو گئی۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور زیادتیوں کے خلاف ہائی کمیشن آف لندن کے سامنے کئی دفعہ احتجاج ہوا۔

ملاقاتیں بھی ہوئیں مگر نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اس لیے سیاسی اور حکومت کی نوکری پکی کرنے والوں سے کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔ کیونکہ سیاست دان ہمیشہ ڈپلومیسی سے کام لیتے ہیں اور کسی کو ناراض نہیں کرتے۔ خاص کر جب مذہب کے ٹھیکیداروں کا خوف طاری ہو۔ اس لئے کہ وہ انسانیت کی بات نہیں کرتے۔ اور سیاسی لیڈر اشاروں سے یہ بات ضرور سمجھا دیتے ہیں اور سچے بھی ہو جاتے ہیں کہ حکومت اقلیتیں کو در پیش مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے۔ مگر وہ بیچارے مجبور اور بے بس ہیں اور کوئی خطرہ مول کے قابل نہیں ہوتے۔ کیونکہ دیواروں سے سر پھوڑنے سے اپنا سر ہی پھٹے گا۔ کچھ ایسا ہی جواب چوہدری صاحب کا بھی تھا۔

مسیحی حلقوں میں اس ملاقات کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ کہ گورنر سرور چوہدری نے ان کے مطالبات کو بڑی خندہ پیشانی سے سنا اور وعدہ کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادیں پر حل کروانے کی کوشش کریں گے۔ یاد رہے کہ اس ملاقات کو ستارہ پاکستان سابق میئر اور مسلسل الیکشن میں 10 بار کامیاب ہونے والے کونسلر ڈاکٹر جیمس شیرا  نے اپنے ذاتی کوششوں سے منظم کروایا۔ وہ اس سے پہلے بھی پاکستان کے ہائی کمشنر سے مل کر ملاقاتوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔

جیمس شیرا صاحب پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان میں رہنے والے مسیحیوں کے حقوق کے لئے کوشاں ہیں۔ اس ملاقات کا چار اہم نکاتی ایجنڈا بھی انہوں نے ہی تیار کیا۔ 1۔ جبری تبدیلی مذہب و نکاح کی روک تھام۔ 2۔ ایڈورڈز کالج پشاور، گارڈن کالج راولپنڈی اور دیگر تعلیمی اداروں کی واپسی۔ 3۔ میڈیکل اور انجینئرز کالجز کے کوٹہ میں اضافہ۔ 4۔ ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم پر عمل درآمد۔ ایک ماہر سیاست دان کی طرح گورنر پنجاب سرور چوہدری صاحب نے مسیحیوں کو یقین دہانی کروائی کہ وہ وطن پہنچتے ہی آخری تین مطالبات پر اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے حل کروانے کی کوشش کریں گے۔

رہی بات پہلے ایشو کی تو ان کا جواب تھا کہ وہ اور ان کی حکومت بخوبی جانتے ہیں کہ جبری تبدیلی مذہب و نکاح اقلیتوں کا ایک اہم ایشو ہے۔ حکومت اس مسئلے کا تدارک کرنا چاہتی ہے مگر بہت سی بنیاد پرست قوتیں ان کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ ان کا یہ جواب کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس ایشو کے تدارک کے لئے تمام اقلیتی سیاسی لیڈرز اور کئی ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کوشش کی کہ جبری تبدیلی مذہب و نکاح کا بل پاس کروایا جائے مگر حکومت میں موجود مذہبی بنیاد پرست وزراء، مذہبی سیاسی جماعتوں سمیت انسانی حقوق کے علمبردار، رکن قومی اسمبلی اور سینیٹرز سمیت وزیر اعظم نے بھی اس بل کی سخت مخالفت کی۔

یاد رہے کہ دوران ملاقات گورنر صاحب نے گلاسگو کی ایک مثال دی کہ مسلم لڑکی اور سکھ لڑکے کا واقعہ سنا یا جو مائنر تھے۔ وہاں کے مسلمز اور ان کی کوششوں سے عدالت نے ان کی شادی غیر قانونی قرار دے دی اور ان دونوں کو انکے خاندانوں کے حوالے کر دیا گیا۔ جناب گورنر صاحب، وزراء خطرات اور قارئین! اقلیتیں بھی تو یہی چاہتی ہیں کہ مائنر ایج کی شادی کی اجازت نہ دی جائے۔ مگر قانون موجود ہونے کے باوجود مذہبی جماعتیں ہر ایسے کیس میں کود پڑتی ہیں اور کیس شرعی لاء کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ مذہبی قوت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس سے عدلیہ درست فیصلہ نہیں کر پاتی اور اقلیتوں کو انصاف نہیں مل پاتا۔ پھر بھی خدائے قادر پر پورا بھروسا ہے کہ ایک نہ ایک دن دعائیں ضرور رنگ لائیں گی۔ کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments