لکی ون شاپنگ مال میں نوجوان کی خودکشی: ’میرے بیٹے کے خود کشی کی ویڈیوز سوشل میڈیا سے ہٹائی جائیں‘

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


زوہیر
کراچی میں خودکشی کرنے والے نوجوان کی والدہ نے اپیل کی ہے کہ خودکشی کے مناظر والی ویڈیوز سماجی ویب سائیٹوں سے ہٹائی جائیں کیوں کہ یہ ان کے لیے تکلیف کا باعث بن رہی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر جو ویڈیو موجود ہے اس کو بہت دیکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے متعلقہ اداروں اور لوگوں سے اپیل کی ہے کہ اس کو ہٹائیں کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے دو چھوٹے بیٹے اور بیٹی خوف میں گھر سے نہیں نکل سکیں گے اور کوئی کام نہیں کرسکیں گے اور یہ کہ انھیں گھر بھی چلانا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’انھیں ایک ماں کی اپیل سننی چاہیے۔‘

کراچی کے ایک معروف شاپنگ مال میں منگل کی دوپہر ایک نوجوان نے 28 سالہ زوہیر ولد ہاشم نے تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تھی۔

اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے شیئر کی جا رہی تھیں لیکن پاکستانی حکام کی جانب سے اس ویڈیو کو ہٹانے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

شاپنگ مال میں خودکشی کی ویڈیو ابھی تک وائرل کیوں ہے؟

میڈیا کارکن فہیم مغل کی خودکشی: ’آخری دن جیب میں بچے کے لیے دودھ لانے کے پیسے نہیں تھے‘

اگر کوئی کہے ’میں خودکشی کرنا چاہتا ہوں‘ تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

ڈائری لکھنا آپ کی ذہنی صحت کے لیے کتنا مفید ہے؟

ادھر آن لائن مواد کے نگراں ادارے پی ٹی اے نے کہا تھا کہ یہ ویڈیو ان کے علم میں ہے اور وہ اسے ‘دیکھ رہے ہیں’ اور قانون کے مطابق متعلقہ حکام کو کارروائی کا کہا ہے۔

بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ زوہیر ایک کال سینٹر میں کام کرتا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ چار سال قبل فرقہ ورانہ بنیاد پر اس پر تشدد کیا گیا تھا اور اس کے سر پر چوٹیں آئیں جس کے بعد سے اس کی طبعیت بہتر نہیں رہتی تھی۔

زوہیر کی والدہ نے مزید بتایا کہ زوہیر نے کراچی یونیورسٹی سے ریاضی میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور لوگوں کو جب معلوم ہوتا تو وہ کہتے کہ ’پوزیشن کے باوجود تمہیں نوکری نہیں ملی‘ جس سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا پانچ وقت کا نمازی اور انتہائی فرمانبردار تھا۔ وہ ان سے گھر کا سامان وغیرہ منگواتی تھیں، اس روز بھی اس نے میسیج کیا تھا کہ ’میں آجاؤں گا‘ لیکن وہ لکی مال چلا گیا۔

اس وقت بنت زہرہ سکول میں تھیں۔ اس روز دیر ہوگئی تھی کیونکہ بچوں کی فیئر ویل تھی، وہاں انہیں بیٹے کی خودکشی کے بارے میں خبر ملی۔ ’میں نے ہمت کا مظاہرہ کیا، عباسی شہید ہسپتال ساتھ گئی۔‘

‘زوہیر بے روزگاری سے پریشان تھا’

کراچی کے علاقے انچولی کے رہائشی زوہیر کے تین بھائی اور ایک بہن ہیں جبکہ ان کے والد کی پندرہ سال قبل وفات ہوگئی تھی۔ والدہ ٹیچر ہیں جنھوں نے ان کی پروش کی۔

زوہیر کے ایک قریبی دوست کمیل نے بتایا کہ 15 روز قبل ان کی ملازمت چلی گئی تھی۔ تاہم یہ نوکری کیا تھی انھیں اس کا علم نہیں۔

پولیس کے مطابق 28 سالہ زوہیر ڈپریشن کا شکار تھے اور انھوں نے بیروزگاری و گھریلو مسائل کی وجہ سے خودکشی کی۔ کمیل کا بھی یہی کہنا ہے کہ زوہیر ڈپریشن کا شکار تھے اور زیر علاج بھی تھے۔

‘وہ بیروزگاری کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments