چین میں صحافیوں کی نگرانی: ’باعثِ تشویش‘ افراد کے سفری ٹکٹ خریدتے ہی حکام کو خبر ہو جائے گی

جیمز کلیٹن - ٹیکنالوجی رپورٹر، شمالی امریکہ


BBC
چین کا صوبہ ہینان چہروں کی شناخت کی صلاحیت والا نگرانی کا ایسا نظام بنا رہا ہے جو صحافیوں اور دیگر 'باعثِ تشویش افراد' کی شناخت کر سکے گا۔

بی بی سی نیوز کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق یہ نظام صحافیوں کو ٹریفک کی بتیوں کی طرح ‘سبز، پیلے اور سرخ’ رنگ کے زمروں میں تقسیم کر سکے گا اور حکام کے مطابق ‘سرخ’ زمرے میں موجود صحافیوں سے ‘ضابطے کے مطابق سلوک’ کیا جائے گا۔

ہینان پبلک سکیورٹی بیورو نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر کوئی مؤقف نہیں دیا۔

یہ دستاویزات نگرانی کے سسٹمز کا تجزیہ کرنے والی فرم آئی پی وی ایم نے حاصل کیے جن میں دیگر ‘باعثِ تشویش افراد’ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جن میں غیر ملکی طلبہ اور تارکِ وطن خواتین شامل ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ: ‘حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی نگرانی کی طاقت کی ضرورت نہیں ہے، خاص طور پر ایسے افراد جو پرامن طریقے سے حکومت کا احتساب چاہتے ہیں۔’

رواں سال 29 جولائی کو شائع ہونے والی یہ دستاویزات ٹھیکے جاری کرنے کے مرحلے کا حصہ ہیں جن کے تحت چینی کمپنیوں کی نئے نظام کی تیاری کا ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔

نیوسافٹ نامی کمپنی نے 17 ستمبر کو کامیاب بولی کے ساتھ یہ ٹھیکہ حاصل کر لیا۔

نیوسافٹ نے بھی بی بی سی نیوز کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر جواب نہیں دیا ہے۔

اس نظام میں چہرہ پہچاننے والی ٹیکنالوجی کا رابطہ ہینان میں موجود ہزاروں کیمروں سے ہو گا جس کے ذریعے حکام کسی ‘باعثِ تشویش فرد’ کے نظر آتے ہی خبردار ہو جائیں گے۔

‘باعثِ تشویش افراد’ کو پہلے سے موجود ڈیٹا بیس میں ترتیب دیا جائے گا جس میں صوبے کے افراد کے بارے میں معلومات اور اُن کی تصاویر موجود ہیں۔

یہ نظام چین کے قومی ڈیٹابیس سے بھی منسلک ہو گا۔

غیر ملکی صحافیوں میں دلچسپی

ہینان پبلک سکیورٹی بیورو کی دلچسپی صحافیوں بالخصوص غیر ملکی صحافیوں میں ہے۔

دستاویزات کے مطابق ‘ابتدائی تجویز اہم صحافیوں کو تین زمروں میں تقسیم کرنا ہے۔’

‘سرخ نشان والے صحافی سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہوں گے۔’

دستاویزات کے مطابق اس کے بعد پیلے نشان والے لوگوں کی ہو گی جن کے بارے میں عمومی دلچسپی ہوگی۔’

‘تیسری سطح سبز نشان والے صحافیوں کی ہوگی جو بے ضرر ہوں گے۔’

اور جیسے ہی ‘باعثِ تشویش صحافی’ جو سرخ زمرے میں ہوں گے، یا پہلے سے فوجداری الزامات کے حامل ہونے پر پیلے زمرے میں ہوں گے، اگر وہ صوبے میں داخل ہونے کے لیے ٹکٹ کٹوائیں گے تو یہ نظام الرٹ جاری کر دے گا۔

نگرانی، چین

دستاویزات کی ایک سلائیڈ جس میں درج ہے کہ یہ نظام کیسے کام کرے گا

اس کے علاوہ یہ نظام غیر ملکی طلبہ کا بھی جائزہ لے کر اُنھیں خطرے کے تین زمروں میں تقسیم کرے گا جن میں ‘بہترین غیر ملکی طلبہ، عام افراد، اور اہم اور غیر مستحکم افراد’ شامل ہیں۔

دستاویزات کے مطابق ‘حفاظت کا یہ تجزیہ غیر ملکی طلبہ کی روزانہ حاضری، امتحانی نتائج، وہ کن ممالک سے آ رہے ہیں، اور تعلیمی ادارے میں نظم و ضبط کی پابندی کی بنا پر کیا جائے گا۔’

اس کے علاوہ تعلیمی ادارے بھی حکام کو اُن طلبہ کے بارے میں خبردار کریں گے جن کے بارے میں سکیورٹی تحفظات موجود ہوں گے۔

اور ایسے طلبہ جنھیں باعثِ تشویش سمجھا جائے گا، اُن کی نگرانی کی جائے گی۔’

یہ بھی پڑھیے

‘میرے باس نے جس طرح میری نگرانی کی، وہ پریشان کن تھا‘

جاسوسی کرنے والا اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس کیسے کام کرتا ہے، اس کے حملے سے کیسے بچا جائے؟

’بات نہ کرو ، گولی مارو‘: اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ایران میں جاسوسی کارروائیوں کی تاریخ

سیاسی طور پر حساس وقتوں مثلاً نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس کے دوران ‘جنگی حالات کے لیے الارم کا نظام’ فعال کر دیا جائے گا جو ‘اہم’ طلبہ کی نگرانی سخت کر دے گا اور اُن کے سیل فونز تک بھی ٹریک کیے جائیں گے۔

دستاویزات میں مندرجہ ذیل ذرائع سے معلومات کے حصول کی خواہش ظاہر کی گئی ہے:

  • سیل فونز
  • سوشل میڈیا مثلاً وی چیٹ اور ویبو
  • گاڑیوں کی تفصیلات
  • ہوٹلز میں رہائش
  • سفری ٹکٹس
  • جائیداد کی ملکیت
  • تصاویر (موجودہ ڈیٹابیس سے)

اس کے علاوہ یہ نظام ایسی غیر ملکی تارکِ وطن خواتین کی بھی نگرانی کرے گا جن کے پاس چین میں رہائش کا اجازت نامہ نہیں ہے۔

چین میں دیگر ممالک سے کام کی تلاش میں بڑی تعداد میں خواتین آتی ہیں جبکہ کئی خواتین کو دیگر ممالک سے سمگل کر کے یہاں لایا جاتا ہے۔

یہ سسٹم نیشنل امیگریشن بیورو، وزارتِ عوامی تحفظ اور ہینان پولیس سمیت دیگر محکموں کے ساتھ منسلک ہو گا۔

یہ دستاویزات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب چینی حکومت نے ہینان میں سیلاب کی کوریج پر غیر ملکی میڈیا اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

چین

ہینان میں ایک سال جتنی بارشیں تین دن میں ہونے کے بعد ژینگژو شہر میں املاک کو کافی نقصان پہنچا

آئی پی وی ایم کے گورنمنٹ ڈائریکٹر کونر ہیلی نے کہا: ‘چین میں بڑے پیمانے پر نگرانی کے تکنیکی نظام کو اب تک ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا ہے، مگر صحافیوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنانے کے لیے نئی، خصوصی ٹیکنالوجی کی تیاری نئی بات ہے۔’

اُن کے مطابق ‘یہ دستاویزات عکاسی کرتی ہیں کہ چین کے عوامی سکیورٹی کے حکام بڑے پیمانے پر نگرانی سے کیا چاہتے ہیں۔’

چین کی چہرہ پہچاننے والی ٹیکنالوجی کے بارے میں خیال ہے کہ یہ پہلے ہی ملک گیر سطح پر استعمال ہو رہی ہے۔

گذشتہ برس دی واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ ہیواوے نے مصنوعی ذہانت کے ایسے سافٹ ویئر کی آزمائش کی ہے جو اویغور نسلی اقلیت کے لوگوں کے چہرے پہچان کر پولیس کو خبردار کر سکے گی۔

ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے چین سوفی رچرڈسن نے کہا: ‘مقصد بہت سنسنی خیز ہے، یہ یقینی بنانا کہ ہر کسی کو معلوم ہو کہ اُن پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور نظر رکھی جائے گی، اور اُنھیں کبھی یہ معلوم نہ ہو کہ کیا چیز اُن میں منفی دلچسپی کو متحرک کر دے گی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments