معذور افراد کا عالمی دن: سپیشل بچے اور ان کے والدین پاکستان میں کن مشکلات سے گزرتے ہیں؟

محمد زبیر خان - صحافی


سپیشل بچے
’پریشان نہ ہونا، میں پہنچ گیا ہوں۔‘ نو برس کی ہادیہ اپنے والد کی آواز سنتے ہی دوڑ کر ان سے لپٹ کر رونا شروع ہو جاتی ہے۔ ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا ہادیہ کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا ہے۔

بچی کو روتا دیکھ کر والد عارف (فرضی نام) بمشکل اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے ہادیہ سے کہتے ہیں کہ ’اگر میرے بس میں ہو تو میں تمھیں ایک لمحے کے لیے بھی خود سے جدا نہ کروں۔‘

یہ مناظر میں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں سپیشل بچوں کے خصوصی ادارے سیم انسٹی ٹیوٹ آف سپیشل ایجوکیشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن میں دیکھے۔ اس ادارے کی سربراہ ثمینہ کوثر بھی یہ مناظر دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔

ضلع ہری پور کی رہائشی ہادیہ کے والد ایبٹ آباد میں سرکاری ملازم ہیں۔ وہ روزانہ ہادیہ کو صبح کے وقت ادارے میں چھوڑ دیتے ہیں اور شام کو تقریباً چار بجے واپس لے جاتے ہیں۔

اس روز وہ کچھ تاخیر کا شکار ہوئے تو ہادیہ خاصی پریشان نظر آئیں۔ اگرچہ انھوں نے اپنی زبان سے تو کچھ نہیں کہا مگر ان کے آنسو اس درد کی کہانی بیان کر رہے تھے۔

عارف بار بار اپنی بیٹی کو اس طرح پیار کر رہے تھے جیسے وہ تاخیر ہونے پر ہادیہ سے معذرت کر رہے ہوں۔ عارف نے بی بی سی کو صرف اتنا بتایا کہ ’یہ تو ہماری زندگی کا المیہ بن چکا ہے۔‘

ادارے کی سربراہ ثمینہ کوثر نے کہا ہے کہ یہاں پر موجود ہر خاندان کی یہی کہانی ہے اور ’میری اپنی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔‘

’اپنے مستقبل یا بچے میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا‘

ثمینہ کوثر کہتی ہیں کہ ’بیٹے کی پیدائش کے 13ویں دن جب ڈاکٹر نے بتایا کہ میرا عارج سپیشل بچہ ہے تو اس وقت میں ایک نوجوان ماں تھی۔ مجھے لگا کہ میری جدوجہد شروع ہوچکی ہے۔ جس کے لیے میں نے خود کو تیار کرنا شروع کردیا تھا۔‘

جب ثمینہ کوثر ماں بنیں تو اس وقت وہ یونیورسٹی کی طالب علم تھیں۔ ’عارج کی پیدائش کے بعد میں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں میڈل حاصل کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عارج کی پیدائش کے چند ماہ بعد تعلیم مکمل کر کے میں نے آرمی برن ہال سکول اینڈ کالج ایبٹ آباد میں ملازمت حاصل کرلی۔ کئی ماہ تک وہاں پر کام کرنے کے بعد مجھے قطر میں پاکستانی سفارتخانے میں ملازمت ملی تو عارج کو لے کر قطر منتقل ہو گئی۔‘

انھوں نے قطر میں تین سال کام کیا۔ ’میرا خیال تھا کہ قطر میں شاید عارج کے لیے مناسب سہولتیں ہوں گی مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا تو مجھے وہاں پر اپنے مستقبل اور عارج میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ملازمت شاندار تھی، ترقی کے کئی مواقع تھے مگر عارج ’میرا بیٹا اور میرا سب کچھ تھا‘ جس بنا پر قطر سے واپسی کا فیصلہ کیا گیا۔

ثمینہ کوثر عارج کے لیے ملازمت چھوڑ کر واپس پاکستان کے شہر کراچی منتقل ہو گئیں، جہاں پر وہ عارج کو علاج معالجے اور بحالی کے لیے مختلف مراکز لے کر جاتی تھیں۔

’عارج اپنے قدموں پر چل نہیں سکتا تھا۔ اس کو اپنے قدموں پر چلانے کے لیے صبح میں بحالی سنٹر جاتی تھی اور شام کو تھراپی کے لیے لے کر جاتی تھی۔‘

ثمینہ عارج کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لاتی اور واپس لے جاتی تھیں۔ کئی برسوں کی محنت کے بعد جب عارج اپنے قدموں پر چلنے کے قابل ہوئے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ ’کوشش کریں کہ عارج عام بچوں کے سکول میں تعلیم حاصل کر سکے‘ مگر تعلیمی اداروں نے عارج کو قبول نہیں کیا۔

ثمینہ کوثر کہتی ہیں کہ ’انیس، بیس سال پہلے عارج جیسے بچوں کے لیے علاج معالجے کی مناسب سہولتیں صرف کراچی ہی میں دستیاب تھیں۔‘

’جب ڈاکٹروں نے کہا کہ عارج کو اب اگر عام تعلیمی اداروں میں عام بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے تو یہ مزید بہتر ہو سکتے ہیں تو میں واپس ایبٹ آباد منتقل ہو گئی کہ ایبٹ آباد میں تعلیم کی بہت اچھی سہولتیں دستیاب تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہاں سے ایک اور جدوجہد شروع ہو گئی تھی۔ ’میں عارج کو تعلیمی اداروں میں لے کر جاتی ان کو منھ مانگی فیسیں دیتی۔ عارج کے لیے کچھ خصوصی سہولتوں کا انتظام کرتی مگر عارج کسی بھی سکول میں چند دن سے زیادہ نہیں ٹھہرتے تھے۔‘

ثمینہ کوثر کا کہنا تھا کہ عارج کو سب سے پہلے سکول میں اپنے ہم عمر بچوں کی جانب سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ ’عارج کو بچے چلتے چلتے دھکا دے دیتے جس سے وہ گر کر زخمی ہوجاتے تھے۔‘

ان کے مطابق اساتذہ اتنے حساس اور تربیت یافتہ نہیں تھے کہ وہ اس پر توجہ دے سکتے۔ معذوری کے ساتھ عارج کو سکول میں قبول بھی نہیں کیا جاتا تھا۔

ثمینہ کے مطابق بچوں کے والدین سکول کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے تھے۔ وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے بچے کسی سپیشل بچے کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کریں۔

عارج کے ساتھ جب اس طرح کا برتاؤ کیا جاتا تھا تو وہ خود بھی سکول جانے سے انکاری ہو جاتے تھے۔ ثمینہ کے مطابق اس صورتحال کو دیکھ کر ’میں بیٹھ کر روتی رہتی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

’اسقاطِ حمل نہ کروا کر میں نے اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا‘

کیا ماہواری کے ایام کا حساب لگانے والی ایپس نے خواتین کو مایوس کیا ہے؟

’ڈاکٹروں نے کہا اس کے ہاتھ، پیر نہیں اسے پیٹ میں ہی ضائع کروا دیں‘

غلطی سے مینٹل ہسپتال داخل کروائی جانے والی لڑکی کامیاب ماڈل کیسے بنی؟

پھر ثمینہ نے ایک رات سوچا کہ عارج اور عارج جیسے دوسرے بچوں کے لیے الگ ادارہ کھولنا چاہیے۔ عارج کے والد امجد اور سوشل ورکر اجمل وحید سے بات کی تو وہ مدد کے لیے تیار ہو گئے۔

اکثر ماں باپ طعنے سنتے ہیں کہ کیا غلطی تھی جو ایسی اولاد پیدا ہوئی

ثمینہ کوثر خود انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ماہر تھیں اور یہی مہارت ادارہ کھولنے میں مددگار ثابت ہوئی۔ ’میں نے انٹرنیٹ سے بہت کچھ خود ہی سیکھا تھا۔ جب 2010 میں ادارے کا آغاز کیا تو اس وقت لوگوں میں اتنا شعور نہیں تھا۔‘

عارج اس ادارے کا پہلا طالب علم تھا۔ اس ادارے میں تمام بنیادی سہولتیں موجود تھیں۔ ’لوگ آتے، دیکھتے اور چلے جاتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اپنے معذوری کے شکار بچوں کو بھی لانا شروع ہو گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ماہر افراد کو تلاش کرنا تھا۔ ’اس ادارے کی سب سے پہلی استاد کراچی سے ایبٹ آباد شادی کر کے آنے والی ایک خاتون تھیں۔‘

سپیشل بچے

ثمینہ کوثر کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ بنیادی طور پر بحالی مرکز چلا رہے ہیں جہاں پر ہمیں ماہر نفسیات، فزیو تھراپسٹ اور اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو بچے ہمارے پاس داخل ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت غریب خاندانوں کے بچوں کی ہے، جو فیس ادا نہیں کرسکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی ان کے پاس پچاس کے لگ بھگ بچے موجود ہیں جبکہ کئی درجن بچے یہاں سے ہنر مند ہو کر فارغ التحصیل ہوئے۔

ان میں سے کچھ اس وقت چھوٹا موٹا کاروبار کر رہے ہیں اور کچھ ویسے ہی فارغ بیٹھے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ قسمت انھیں کس طرف لے جاتی ہے۔

ثمینہ کے مطابق لوگ ایسے افراد کی زندگی کو طعنے اور طنز اجیرن بنا دیتے ہیں۔ ’گذشتہ دنوں ہی کی بات ہے ہمارے پاس دو جڑواں سپیشل بہنیں ہیں۔ ان کے ماں باپ اکثر آتے ہیں۔ عملاً بچیوں کی تمام ذمہ داری ماں پر ہے۔ وہ نہ صرف بچیوں کو سنبھالتی ہیں بلکہ گھر کے کام کاج بھی کرتی ہیں۔‘

ایک طرف ماں پر اتنا بوجھ ہے تو دوسری طرف ان کے خاوند نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ’میرے سامنے کئی مرتبہ اس خاتون کے خاوند نے ان سے کہا کہ یہ تمھاری وجہ سے ہوا۔‘

ثمینہ کے مطابق وہ خاتون اس بات پر اتنا پریشان ہیں کہ ’وہ مجھ سے رو رو کر کہتی ہے کہ حالات چاہے جو بھی ہوں میں سنبھال لوں گی مگر خدا کے لیے میرے خاوند کے ذہن سے یہ بات نکالیں کہ میں اس بات کی ذمہ دار ہوں۔‘

’مجھے تو عارج کی وجہ سے طعنے نہیں سننے پڑے مگر اکثریت ماں باپ کو طعنے سننے پڑتے ہیں کہ تمھاری کیا غلطی ہوئی کہ ایسی اولاد پیدا ہوئی۔‘

والدین اس وجہ سے اپنے بچوں کے مسقبل کے حوالے سے پریشان حال ہوتے ہیں۔

ثمینہ کوثر کہتی ہیں کہ ’میں ایک سپیشل بچے کی ماں کی حیثیت سے بتاتی ہوں کہ میرے پاس تمام وسائل تھے۔ میرا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ سب نے عارج کو دل و جان سے قبول کیا تھا۔ ہر ایک نے عارج کا ساتھ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عارج اب باقی سپیشل بچوں سے کچھ بہتر زندگی گزار رہا ہے۔‘

مگر ایک ماں کی حیثیت سے وہ بتاتی ہیں کہ ’عارج کا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر عارج کا کوئی مستقبل نہیں تو باقی اس طرح کی معذوری کا شکار بچوں اور لوگوں جن کے پاس کوئی وسائل نہیں، وہ کیا کرتے ہوں گے۔‘

’سپیشل لوگوں کو نہیں اداروں کو ہونے کی ضرورت ہے‘

پاکستان میں قومی شناخت کے ادارے نادرا کے مطابق ان کے پاس مختلف چار کیٹیگریز میں رجسڑڈ سپیشل افراد کی تعداد 387805 ہے جس میں سے 27081 کم عمر ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ تعداد کئی گنا زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔

چئیرمین نادرا طارق ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’معذور عارج نہیں بلکہ ہمارے ادارے اور معاشرہ ہے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہوئے بھی ان جیسے افراد کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔‘

ان کے مطابق نادرا نے کسی بھی قسم کی معذوری کے شکار افراد کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں اور ان کی سہولت کے لیے نادرا میں ایک پروسیجرل سیل بھی قائم کیا ہے۔

’ہم نے کوشش کی کہ ایسے افراد کی نادرا خود تصدیق کرے اور خاص لوگوں والے شناختی کارڈ بنائے تاکہ انھیں اپنی معذوری ثابت کرنے کے لیے سوشل ویلفیئر سمیت مختلف اداروں کے چکر نہ لگانا پڑیں۔‘

ان کے مطابق ایسے افراد کے شناختی کارڈ پر ایک لوگو بنا ہوا ہے، جس سے ان کو مختلف مقامات اور اداروں میں سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ ’اس لوگو کی وجہ سے انھیں دنیا بھر میں ترجیحی بنیادوں پر خدمات مہیا کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘

طارق ملک نے تسلیم کیا کہ باہر کے ممالک تو ایسی صورتحال کو سمجھتے ہیں مگر بدقسمتی سے ’ہم اپنے اداروں کو ہی نہیں سمجھا سکے کہ ان افراد سے کیسے پیش آنا ہے۔‘

طارق ملک کہتے ہیں کہ ’یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمارے ادارے اس حد تک حساس نہیں ہیں جس حد تک انھیں ہونا چاہیے بلکہ میں کہوں گا کہ سپیشل لوگوں کو نہیں اداروں کو سپیشل ہونے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت سپیشل لوگوں کے معاملے میں ہمارے ادارے سپیشل ہیں۔‘

چیئرمین نادرا کے مطابق ’ملک میں خصوصی افراد کے لیے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے مگر صرف قانون سازی ہی سے بات نہیں بنے گی بلکہ اس کے لیے مزید حساس ہونے کی بھی ضرورت پڑے گی۔‘

’اداروں، معاشرے اور ہم سب کو سمجھنا ہو گا کہ سپیشل لوگ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ ان کی بہتری اور ترقی سے معاشرے کی بہتری اور ترقی ہو گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments