کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد میں کانسرٹ کے خلاف سوشل میڈیا، مساجد میں مہم


صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد کی کامسیٹس یونیورسٹی میں پانچ دسمبر کے لیے طے شدہ میوزک کنسرٹ تنازعے کا شکار ہو گیا ہے اور مذہبی حلقوں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد صورتحال میں کشیدگی دکھائی دے رہی ہے۔

مذہبی تنظیموں نے کنسرٹ منعقد ہونے کی صورت میں احتجاج اور بزورِ بازو کنسرٹ کو روکنے کی دھمکی دی ہے۔

ان دھمکیوں پر یونیورسٹی کے کئی طلبا و طالبات نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ’انتہائی افسوسناک اور پر تشدد رویہ‘ قرار دیا ہے۔

ڈائریکٹر کامسیٹس یونیورسٹی ڈاکٹر امتیاز علی خان سے اس سلسلے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر انھوں نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

کامسیٹس یونیورسٹی کی سوسائٹی ’فن کدہ‘ کی تشہیری مہم کے مطابق اس کنسرٹ میں ممتاز گلوکار اور فنکار فرحان سعید خصوصی پرفارمنس دیں گے۔

یونیورسٹی میں پروگرام کیا ہو رہا ہے؟

کامسیٹس یونیورسٹی کی سوسائٹی ’فن کدہ‘ کے مطابق یونیورسٹی میں ہر تھوڑے عرصے اور عموماً ایک دو سیمسٹر کے بعد طلبا و طالبات کی تفریح کے لیے فن کدہ کوئی نہ کوئی ایونٹ منعقد کرواتی رہتی ہے جس میں کبھی مقامی فنکاروں اور کبھی دوسرے شہر کے فنکاروں کو دعوت دی جاتی ہے۔

اس سال بھی فن کدہ نے اپنی روایات کے مطابق ایونٹ منعقد کروانے کااعلان کیا ہے۔

پہلے اس ایونٹ کو اوپن رکھا گیا تھا مگر بعد میں اس کو ہال میں منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سوسائٹی نے بتایا کہ اس ایونٹ میں داخلے کے لیے ایک ہزار اور دو ہزار روپے کی ’مناسب‘ فیس مقرر کی گئی جس کا مقصد حاصل ہونے والی رقم کو فلاحی کاموں پر خرچ کرنا تھا۔

سوسائٹی کے ایک عہدیدار طالب علم جو کہ دھمکیوں کے بعد خوف کا شکار ہیں کے مطابق وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ ایونٹ منعقد کیا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کے لیے کئی بڑے بڑے سمجھوتے کیے ہیں جن میں پروگرام کو اوپن ایئر کے بجائے ہال میں کروانا بھی شامل ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ پہلے پروگرام کا مجوزہ دورانیہ پانچ سے چھ گھنٹے تک تھا اور اس میں کئی فنکاروں کی پرفارمنس کے علاوہ مختلف پروگرام منعقد کروانے تھے، مگر اب اس کو بہت محدود کر دیا گیا ہے، اس کے باوجود بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں ایسے پروگرام منعقد ہوتے رہتے تھے، مگر اُنھیں معلوم نہیں کہ اس مرتبہ ایسا کیا ہوا ہے کہ دھمکیاں ملنی شروع ہو چکی ہیں۔

اُنھوں نے خیال ظاہر کیا کہ شاید کسی سطح پر کوئی بدنظمی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

یونیورسٹی کا نیا ڈریس مگر ’جینز تو کم آمدنی والے لڑکے لڑکیاں پہنتے ہیں؟‘

’لڑکی کو مارنے پر کوئی متوجہ نہیں ہوتا مگر پیار سے گلے لگانا بڑا جرم‘

وہ پاکستانی مدرسہ جس کے سابق طلبہ نئی طالبان کابینہ میں بھی شامل ہیں

لمز میں قیام بنگلہ دیش پر کانفرنس منسوخ، ’کیا ہم 50 سال بعد بھی بنگلہ دیش پر بات نہیں کرسکتے؟‘

فن کدہ سوسائٹی کے ایک اور طالب علم عہدیدار کے مطابق پروگرام یونیورسٹی کی انتظامیہ کی مکمل مشاورت بلکہ ’ہدایات‘ کے مطابق کیا گیا ہے جس کے لیے کافی عرصے سے تیاریاں کی جا رہی تھیں مگر جب سے احتجاج کی دھمکیاں ملنی شروع ہوئی ہیں، اُس وقت سے یونیورسٹی انتظامیہ کچھ خوف کی شکار نظر آتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ایک مثبت سرگرمی کے بارے میں ’معذرت خواہانہ رویہ‘ اختیار کر رہی ہے جو کہ ’انتہائی افسوسناک‘ ہے۔

بی بی سی نے سوسائٹی کے سربراہ ڈاکٹر شاکر حفیظ سے رابطہ قائم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پروگرام کو ہال کے اندر منتقل کر دیا گیا ہے اور امن و امان کی صورتحال کو سنبھالنا پولیس کا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام یونیورسٹی کی سوسائٹی نے ترتیب دیا ہے تاہم انھوں نے اس پر مزید بات کرنے سے انکار کر دیا۔

ایبٹ آباد پولیس کے مطابق اُنھوں نے صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ پولیس کے مطابق امن و امان کو برقرار رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے تاہم پولیس یونیورسٹی کے اندر کے معاملات میں اس وقت مداخلت کرے گی جب اس بارے میں پولیس سے تحریری طور پر درخواست کی جائے گی۔

https://twitter.com/HanzalaDaud/status/1466424435532091398

کنسرٹ کے خلاف پرتشدد احتجاج کی دھمکیاں

کنسرٹ کے خلاف مہم کا آغاز اس کے اعلان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ گذشتہ جمعے کو مختلف مساجد کے خطیبوں نے کنسرٹ کے خلاف تقاریر کیں جن میں شہری اور یونیورسٹی انتظامیہ کو خبردار کیا گیا کہ اگر ایسا پروگرام منعقد کرنے کا سوچا بھی گیا تو اس کے خلاف شدید احتجاج ہوگا۔

دوسری طرف اسلامی جمعیت طلبا نے اس پروگرام کے خلاف منظم مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔

اسلامی جمعیت طلبا ایبٹ آباد کے ناظم حنظلہ داؤد کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ تعلیمی اداروں میں موسیقی کے پروگرام ہوں۔ ’تعلیمی ادارے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہیں، میوزک کنسرٹ کے لیے نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کامسیٹس یونیورسٹی کی انتظامیہ یونیورسٹی میں پروگرام منعقد کر رہی ہے اور اس کے باقاعدہ ٹکٹ فروخت کررہی ہے۔ ’یونیورسٹی کوئی ہال یا سینما گھر تو نہیں ہیں جہاں پر کسی شو کے ٹکٹ فروخت ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس پروگرام کو منسوخ کیا جائے اور ہماری رائے کا احترام کیا جائے۔‘

گذشتہ روز پروگرام کے خلاف ٹوئٹر پر باقاعدہ ایک ٹرینڈ #Ban_Obscenity_in_ComsatsAtd بھی چلایا گیا ہے جس میں رات گئے تک کوئی نو ہزار کے قریب ٹویٹس ہوئی تھیں۔

صحافی انصار عباسی نے اس ٹرینڈ کی حمایت پر پوسٹ کی تھی۔

جماعت اسلامی کے رہنما عبدالرزاق عباسی نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد کے کئی طلبہ کے والدین اُنھیں فون کر کے یونیورسٹی میں ہونے والے متنازع پروگرام کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

طلبا و طالبات مایوسی کا شکار

یونیورسٹی کے کئی طالب علموں کے مطابق دھمکیوں اور سوشل میڈیا پر منظم مہم کے بعد یونیورسٹی کے اندر تو ایک خوف کا ماحول پیدا ہوا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اُن کے گھروں اور خاندانوں پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس پر طالب علموں کے مطابق وہ دباؤ کے شکار ہیں۔

ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ صورتحال کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جس طرح پتا نہیں یونیورسٹی کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سخت تعلیمی سرگرمیوں کے بعد معمولی سی تفریح منعقد کی جا رہی ہے جس کے خلاف اتنا واویلا کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔

ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اور اُن کی دوستوں نے گھر والوں سے پروگرام میں شرکت کی اجازت حاصل کر لی تھی۔ ’ہم لوگ پُرجوش تھے مگر جب سے سوشل میڈیا پر اور مساجد سے مہم شروع ہوئی ہے، اس وقت کے بعد سے کئی ایک دوستوں کو تو پروگرام میں شرکت سے منع کر دیا گیا ہے جبکہ اُنھیں کہا گیا ہے کہ وہ محتاط رہیں۔

ایک اور طالب علم کا کہنا تھا کہ ایسے پروگرام ہونے چاہییں اور ان پر پابندی افسوسناک ہے۔

’نوجوانوں کے ووٹ سے برسر اقتدار آنے والی حکومت کو نوجوانوں کے جذبات کا خیال کرنا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments