انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت: ’بیٹے کی لاش واپس کرو یا ہم سب کو بھی مار دو‘

ریاض مسرور - بی بی سی اردو، سری نگر


اطہر مشتاق
پولیس کے مطابق اطہر مشتاق گزشتہ برس دسمبر میں ایک مسلح جھڑپ میں مارا گیا
’میرے بیٹے کی عمر 16 سال تھی۔ اُسے فرضی جھڑپ میں مار دیا گیا اور پھر 150 کلومیٹر دُور سونہ مرگ کے جنگل میں زبردستی دفن کیا گیا۔ ایک سال سے میں لاش کا مطالبہ کر رہا ہوں، میں نے قبر بھی کھود رکھی ہے۔‘

’میں پولیس سے کہتا ہوں کہ اگر لاش واپس نہیں دیتے تو ہم سب کو بھی ایک ایسی ہی جھڑپ میں مار دو اور بیٹے کے قریب ہی دفن کردو۔‘

یہ الفاظ ہیں جنوبی ضلع پلوامہ کے رہنے والے مشتاق احمد وانی کے، جن کا بیٹا اطہر مشتاق گزشتہ برس دسمبر میں پولیس کے مطابق ایک مسلح جھڑپ میں مارا گیا۔

پچھلے دو سال سے حکومت نے ’جھڑپوں‘ میں مارے جانے والوں کی لاشیں پولیس کی نگرانی میں آبائی علاقوں سے بہت دُور سرحدی یا جنگلاتی علاقوں میں دفن کرنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن گزشتہ ماہ سرینگر کے حیدرپورہ علاقے میں جس جھڑپ میں پولیس نے دو عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا اُس میں ڈاکٹر مدثر گُل اور الطاف بٹ نامی دو عام شہری بھی مارے گئے۔

پولیس نے اعتراف کیا کہ دونوں کراس فائرنگ میں مارے گئے لیکن چاروں کو سرحدی قصبہ ہندوارہ کے جنگلاتی علاقے میں خفیہ طور پر دفن کیا گیا تھا۔ کئی روز کے احتجاج اور عوامی ردعمل کے بعد الطاف اور مدثر کی لاشیں لواحقین کے سپرد کردی گئیں اور انھیں رات کے دوران آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

اس واقعہ سے حوصلہ پا کر اطہر کے والد مشتاق احمد وانی نے پھر ایک بار اپنے بیٹے کے لیے کھودی گئی خالی قبر کی دہائی دی اور اپنے کمسن بیٹے کی لاش کا مطالبہ دوہرایا۔

’میرا بیٹا گیارہویں جماعت کا امتحان دے رہا تھا۔ چار پرچوں کے بعد وقفہ تھا اور آخری پرچے سے ایک دن پہلے وہ شہر چلا گیا۔ شام کو پولیس نے دعویٰ کیا وہ سرینگر کے لاوے پورہ میں جھڑپ کے دوران مارا گیا۔ اگر وہ عسکریت پسند تھا تو کہیں تو کوئی ریکارڈ ہو گا لیکن میرا مسئلہ اب یہ ہے کہ میرے بیٹے کی لاش واپس کر دی جائے۔‘

اطہر مشتاق کے والد مشتاق احمد وانی

مشتاق وانی کہتے ہیں کہ اگر ان کا بیٹا عسکریت پسند ثابت ہوا یا کسی بھی ایسی کسی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو وہ معافی مانگ لیں گے

مشتاق اپنی بیوی اور بیٹی کے ہمراہ کئی مرتبہ سونہ مرگ اپنے بیٹے کی قبر پر گئے ہیں۔

’تین جگہ جامہ تلاشی اور پوچھ گچھ کے بعد جب قبر کے قریب پہنچتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ پانچ منٹ کے اندر اندر نکل جاوٴ۔ میرا بیٹا قتل ہوا اور مجھے صرف اُس کا جوتا ملا اور ایک کمبل جس پر اُس کا خون ہے۔ میں نے قبر بھی کھود رکھی ہے اور یہ قبر میرے بیٹے کا تب تک انتظار کرے گی جب تک میں زندہ ہوں۔‘

جھڑپوں میں مبینہ ہلاک ہونے والے مسلح عسکریت پسندوں کی لاشیں گزشتہ دو سال سے لواحقین کے سپرد کرنے کی بجائے دُور افتادہ علاقوں میں دفن کی جاتی ہیں لیکن لاوے پورہ اور حیدر پورہ جھڑپوں میں ایک بات مشترکہ ہے کہ دونوں میں مارے گئے افراد کے اہلخانہ نے پولیس کے دعوے مسترد کر دیے۔ دونوں جھڑپوں کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا۔

حیدر پورہ کی جھڑپ کے بارے میں خود لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا تھا کہ دس روز کے اندر تحقیقات مکمل ہوں گی اور کوئی قصور وار پایا گیا تو اُسے بخشا نہیں جائے گا لیکن تین ہفتے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ابھی تحقیقاتی کمیٹی نے متاثرہ خاندان سے بات نہیں کی۔

اطہر وانی کی ہلاکت سے متعلق پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 60 فیصد تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں تاہم ایک سال گزرنے کے بعد بھی معاملہ جوں کا توں ہے۔

مشتاق وانی کہتے ہیں کہ ’اگر میرا بیٹا عسکریت پسند ثابت ہوا یا کسی بھی ایسی کسی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو میں معافی مانگ لوں گا اور اس کی لاش کا مطالبہ نہیں کروں گا لیکن مجھے میرے بیٹے کی لاش لوٹا دو۔‘

حیدرپورہ کی جھڑپ میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں کے رام بن علاقے کا رہنے والا عامر ماگرے اور پاکستانی عسکریت پسند حیدر اُس وقت مارے گئے جب الطاف بٹ اور مدثر کو اُس کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے کہا گیا جہاں وہ چھپے تھے۔

الطاف اور مدثر کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے کے لیے احتجاج

احتجاج اور عوامی ردعمل کے بعد الطاف اور مدثر کی لاشیں لواحقین کے سپرد کر دی گئیں اور انھیں رات کے دوران آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا

پولیس انسپکٹر جنرل وجے کمار نے بتایا کہ ’پہلی مرتبہ اُنھوں نے دروازہ نہیں کھولا لیکن دوسری بار جب دروازہ کھولا تو انھوں نے پستول سے فائرنگ کی جس میں الطاف اور مدثر مارے گئے تاہم جوابی کارروائی میں دونوں عسکریت پسند ہلاک کیے گئے۔‘

وجے کمار کے مطابق جس شاپنگ کمپلیکس میں یہ جھڑپ ہوئی اُس کا مالک ہونے کی وجہ سے الطاف پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام ہے جبکہ مدثر گل کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک جعلی کال سینٹر چلاتا تھا اور عسکریت پسندوں کی اعانت کرتا تھا۔

الطاف بٹ اور مدثر کی لاشیں لواحقین کے سپرد تو کی گئیں لیکن الطاف بٹ کی بھانجی صائمہ بٹ کہتی ہیں کہ لاشوں کی بازیابی کے لئے کی گئی تکلیف دہ جدوجہد کے بعد اب متاثرہ خاندان کو ایک اور جدوجہد کا سامنا ہے۔

’پہلے ہم لاش مانگ رہے تھے، اب ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ میرے چچا بے قصور تھے حالانکہ پولیس کے انسپکٹر جنرل نے خود کہا کہ انھیں ان ہلاکتوں پر افسوس ہے لیکن ایف آئی آر میں میرے چچا کو ابھی بھی عسکریت پسندوں کا اعانت کار ہی بتایا جارہا ہے۔ اس طرح کے بیانات دیے جارہے ہیں، ہمیں ڈرایا جارہا ہے۔‘

آئی جی پولیس وجے کمار نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ لاشیں لواحقین کے سپرد کرنے میں کوِوڈ کے پھیلاوٴ کا خطرہ رہتا ہے اور انتظامیہ کو خدشہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر ایسے واقعات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے امن و قانون میں خلل نہ ڈالیں لیکن الطاف کی بھانجی صائمہ، جو خود ایک تجربہ کار صحافی ہیں، کہتی ہیں کہ ’ہم بھی جانتے ہیں کہ لاش وائرس کے پھیلاوٴ کا ذریعہ نہیں ہو سکتی اور پھر ہم نے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ ہم خاموشی سے انھیں دفن کریں گے لیکن پھر بھی ہمیں لاش کی واپسی کے لیے کہاں کہاں دھکے کھانے پڑے۔‘

گزشتہ تیس برس کے دوران متنازعہ جھڑپوں میں ہوئی ہلاکتوں سے متعلق سینکڑوں مرتبہ تحقیقات کی گئیں لیکن ابھی تک کسی بھی معاملے میں قصورواروں کو سزا نہیں ملی۔

احتجاج

انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے رضا کار محمد احسن اونتو کہتے ہیں کہ انھوں نے حقِ معلومات کے قانون کا سہارا لے کر متعلقہ اداروں سے اعدادوشمار طلب کیے تو حکومت نے اعتراف کیا کہ 30 برسوں میں ایسے ہی 506 واقعات میں تحقیقات کی گئی لیکن صرف ایک معاملے میں تحقیقات مکمل ہو پائیں لیکن اُس میں بھی قصور وار کو سزا نہیں ہوئی۔

ایسے واقعات کی وجہ سے عام کشمیری اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اپنے پیاروں کے باہر جانے پر وہ بار بار انھیں فون کر کے معلوم کرتے ہیں کہ آیا وہ سلامت ہیں۔

صحافی میر سبین گلریز کہتی ہیں کہ ’میں اپنے بھائی اور اپنے خاوند کے بارے میں دن بھر پریشان رہتی ہوں۔ انھیں ذرا سی دیر ہو جائے تو دل میں درد ہوتا ہے۔ میرا تین سال کا بیٹا ہے، میں پریشان ہوں کہ جب وہ بڑا ہو گا تو میں کیا کروں گی؟‘

حارث حمید نامی طالب علم کا کہنا ہے کہ گھر سے نکلتے ہی فون بجنا شروع ہو جاتا ہے۔

’شام کو کسی دوست سے ملنا ہو یا کہیں اور جانا ہو تو پہلے والدین کو مطلع کرنا پڑتا ہے۔ اس سب سے زندگی مشکل بن گئی ہے، میں تو صبح اُٹھ کر روز سوچتا ہوں کہ گھر میں ہی بیٹھا رہوں۔‘

تاجر ملک ظہور کہتے ہیں کہ متنازعہ جھڑپوں کے بارے میں پولیس حکام کئی بار بیان بدل دیتے ہیں جس کی وجہ سے اب لوگوں کو پولیس یا سِول انتظامیہ پر اعتماد نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments