ادریس خٹک: سماجی کارکن کو چودہ برس قید کی سزا

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان میں ایک فوجی عدالت نے سماجی کارکن ادریس خٹک کو جاسوسی کے الزام میں چودہ برس قید کی سزا سنائی ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق سماجی کارکن ادریس خٹک کو دو دسمبر کو سزا سنائی گئی۔ فوجی ذرائع کے مطابق پرویز خٹک پر بڑا الزام ڈرون حملوں کے لیے گراؤنڈ انفارمیشن فراہم کرنا تھا۔ بند کمرے میں ہونے والی فوجی عدالت کی سماعت کے بارے میں فوجی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سماعت کے دوران ملزم کو وکیل فراہم کیا گیا تھا اور ناقابل تردید شواہد سامنے آنے کے بعد سزا سنائی گئی ہے۔

عسکری ذرائع سے اس سوال پر کہ ایک سویلین کا فیلڈ جرنل کورٹ مارشل کیسے کیا جا سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کے تحت ‘مخصوص حالات’ میں سویلین کا فیلڈ جرنل کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔

ادریس خٹک کی بیٹی اور ان کے بھائی اویس خٹک کے مطابق انھیں سرکاری طور پر اس سزا کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اویس خٹک نے کہا کہ انھیں جمعے کے روز جہلم سے فون آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کے بھائی ادریس خٹک کو جہلم کی ڈسٹرکٹ جیل منتقل کیا گیا ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق ادریس خٹک کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی جہلم میں کی گئی۔

عسکری ذرائع کے مطابق ادریس خٹک کے خلاف نہ صرف ملک دشمن غیر ملکی خفیہ اداروں کو حساس معلومات فراہم کرنے کا الزام تھا بلکہ ان پر اس کے علاوہ ایسی معلومات دینے کا بھی الزام ہے جو کہ مختلف افراد سے متعلق تھیں جس کے نتیجے میں امریکی فورسز کی طرف سے ڈروان حملے کیے جاتے تھے جن میں درجنوں بےگناہ افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔

سابق فوجیوں کو سزائیں

دوسری جانب راولپنڈی میں ہونے والی کورٹ مارشل کی کارروائی میں پاکستانی فوج کے تین سابق افسران کو بھی جاسوسی کے الزامات ثابت ہونے پر قید کی سزائیں سنائی گئی ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ فیض رسول کو چودہ برس، میجر ریٹائرڈ سیف الدین بابر کو بارہ برس اور لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ اکمل کو دس برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

ان افراد کو ملک دشمن خفیہ اداروں کو حساس معلومات فراہم کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

عسکری ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ فیض رسول کو دو دسمبر کو جاسوسی کے الزامات میں سزا سنائی گئی تھی۔ جبکہ دیگر دو افراد لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ اکمل اور میجر ریٹائرڈ سیف الدین بابر کے مقدمات کا فیصلہ اکتوبر 2021 میں ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ادریس خٹک: ’میرے والد کو اغوا کیا گیا اور مجھے نہیں پتہ کیوں؟‘

ادریس خٹک ملٹری انٹیلیجنس کی تحویل میں، سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ

لاپتہ کارکن ادریس خٹک کی بازیابی کے لیے درخواست دائر

’دروازے بند نہ کرو نجانے کب میرا بیٹا آ جائے‘

ادریس خٹک کے خلاف مقدمہ

واضح رہے کہ اس سال فروری میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں چلایا جانے والا مقدمہ روکنے کی درخواست خارج کی تھی۔ یہ درخواست ادریس خٹک کے بھائی نے پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔

اس سے قبل پندرہ اکتوبر سنہ 2020 میں اس وقت کے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مرحوم سیٹھ وقار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں چلنے والی کارروائی کو روکنے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا تھا کہ منگلا کور میں ہونے والی اس عدالتی کارروائی کو اس وقت تک روک دیا جائے جب تک اس درخواست پر فیصلہ نہیں سنا دیا جاتا۔

ادریس خٹک کو صوابی سے 13 نومبر سنہ 2019 میں حراست میں لیا گیا تھا اور اس واقعے کے ایک سال بعد وزارت دفاع نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ادریس خٹک ان کی وزارت کے ایک ماتحت ادارے کی تحویل میں ہیں۔

ادریس خٹک کے وکیل طارق افغان ایڈووکیٹ کے مطابق ان کے موکل کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ میں ڈپٹی اٹارنی جنرل اور فوج کے ایجوٹینٹ جنرل کے نمائندے کی طرف سے جو جواب جمع کروایا گیا اس میں ادریس خٹک پر متعدد الزامات عائد کیے گئے اور ان معلومات کے بارے میں بتایا گیا جو انھوں نے مبینہ طور پر برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے ایک مبینہ ایجنٹ مائیکل سیمپل کو فراہم کی تھیں۔

فوجی عدالت میں چلنے والے اس مقدمے میں ادریس خٹک کے خلاف مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل خالد انور آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجی عدالت میں اس مقدمے کی کارروائی اس سال 26 اکتوبر کو مکمل کرلی گئی تھی اور عدالت کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہفتے میں فیصلہ سنا دے گی۔

انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر فوجی عدالت میں ان کے موکل کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کی 20 سماعتیں ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ پریزیڈنٹ (سنیئر جج) کی سربراہی میں چار افراد پر مشتمل بینچ فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی کر رہا تھا۔ جج ایڈووکیٹ جنرل کے علاوہ دو اور افراد بھی فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی کا حصہ تھے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے موکل کو نومبر سنہ2019 میں حراست میں لیا گیا اور پانچ ماہ تک فوجی حراست میں رکھنے کے بعد اپریل سنہ2020 میں مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ سویلین اور آرمی ایکٹ کے مطابق بھی حراست میں لیے جانے والے کسی بھی شخص کو 48گھنٹوں کے دوران مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔

ایک سوال کے جواب میں خالد انور آفریدی کا کہنا تھا کہ اس فوجی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے بارے میں انھیں ابھی تک اپنے موکل کی طرف سے کوئی واضح ہدایات نہیں ملی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments