چمپینزی کا چارلس ڈارون پر غصہ


انسٹھ سالہ ماما چیمپینزی اکتوبر دو ہزار سترہ میں مر گئی۔ مرنے سے ایک ہفتہ پہلے اس کی ملاقات اپنے دوست ولندیری پروفیسر جان انٹون رینیئر الیکس ماریا ہوف المعروف جان وان ہوف سے ہوئی۔ پروفیسر جان وان ہوف جب ماما سے ملے اس وقت وہ شدید علیل تھی اور اپنی زندگی کے آخری دن گن رہی تھی۔

وہ سارا دن چپ چاپ رہتی اور اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تھا۔
ماما کا دوست پروفیسر جان اس سے ملنے آیا۔ مگر وہ کوئی ردعمل دیے بغیر آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی۔

پروفیسر جان نے ماما کو تھپکی دی تو اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ آخری وقت میں دوست سے ملاقات نے اسے کچھ راحت دی۔ مگر اس کے چہری پر افسردگی باقی رہی۔

ماما کی پروفیسر جان سے 1972 میں دوستی ہوئی تھی، یہ دوستی 45 برس پرانی تھی۔ وہ ایک دوسرے کی زبان کو سمجھتے تھے۔

پروفیسر جان جب جب ماما سے ملے بے شمار باتوں کے ساتھ اس نے پنجرے اور قید کا دکھ بھی ظاہر کیا۔ ماما کے بے شمار شکوے اور شکایتوں کو سمجھنے کے باوجود پروفیسر جان ہمیشہ اسے تحفے دے کر بہلاتے پھسلاتے تھے۔

ماما پروفیسر جان کو دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔ اور دو دوست باتیں کرنے لگے۔
پروفیسر جان اسے ہر بار کوئی نئی بات بتاتا تھا۔ اس بار ڈارون تھیوری کے بارے میں بتایا:
”برطانوی ماہر حیاتیات چارلس ڈارون نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ہم انسان تم (چمپینزی) میں سے ہیں!“ (اتقا کی تھیوری یہ نہیں کہتی کہ انسان بندر کی اولاد ہے۔ اس تھیوری کے مطابق یہ دونوں انواع کسی ایک ہی جد سے نکلی ہیں: مدیر)

ماما یہ بات سن کر حیران ہوئی۔ اس نے پروفیسر جان کا ہاتھ پکڑ کر خود سے مشابہت کی اور اشاروں میں کہا :

”یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ تم ہاتھ ہی دیکھ لو۔ ان میں کتنا بڑا فرق ہے۔“
پروفیسر جان نے اسے چارلس ڈارون کی تصویر دکھائی اور کہا:
” یہ ہیں وہ ماہر حیاتیات جس نے یہ ثابت کیا ہے۔ “

ماما نے چارلس ڈارون کی تصویر کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔ وہ فریم شدہ تصویر پر حیرانی سے ہاتھ پھیرتی رہی۔ اسے یہ بات کہانی لگ رہی تھی۔

”کیا آپ مجھے پہلے کی طرح بہلا پھسلا تو نہیں رہے۔ “ ماما نے پروفیسر جان سے کہا۔

” نہیں۔ نہیں۔ یہ سچ ہے۔ چارلس ڈارون نے تحقیق کے بعد انسانی تہذیب کا ارتقا پر کتاب لکھی ہے۔ جس کے مطابق آج کا انسان ارتقائی مراحل سے گزر کر موجودہ حالت تک پہنچا ہے۔ اور تم چمپینزی ہمارے قریبی رشتہ دار ہو۔“

ماما ان باتوں پر غور کرتی رہی۔ ایک لمحے کو اسے یہ باتیں حیران کن لگیں۔ سوچتے سوچتے وہ افسردہ ہو گئی۔ اسے پرانی تلخ یادیں آنے لگیں۔ جنگل، آزاد زندگی اور بچپن میں ڈھائے گئے مظالم۔ ان سوچوں میں اس نے چارلس ڈارون کی تصویر دور پھینک دی اور چلانے لگی۔

پروفیسر جان نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی۔ بڑی کوشش کے بعد وہ پرسکون ہوئی۔
کچھ دیر بعد اس نے پروفیسر جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:

” ڈارون بکواس کرتا ہے۔ ہم تمہارے آبا و اجداد ہو ہی نہیں سکتے۔ تم لوگ ہم میں سے نہیں ہو۔ اگر ہم میں سے ہوتے تو دنیا کا یہ حشر نہیں کرتے۔ دنیا کے وجود سے لے کر انسان کے ظہور میں آنے سے پہلے تک دنیا میں توازن تھا۔ زمین، سمندر، ہوا اور پیڑ پودوں پر سب کا حق تھا۔ مگر تمہارے (انسان) وجود میں آنے کے بعد سے دھرتی پر موجود دیگر مخلوقات کی نسل کشی کی جاری ہے۔ انسان نے تمام وسائل کی صرف اور صرف اپنا سمجھا اور لوٹ مار کی ہے۔

جنگل ختم کر دئے۔ اور کیے جا رہے ہیں۔ سمندر کی مخلوق کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہو۔ جانوروں کے ہزاروں نسل ناپید ہو گئے۔ تم جو خود کو اشرف المخلوقات کہتے ہو۔ تم سے ساری مخلوق کو خطرہ ہے۔ تم نے دھرتی کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اگر مجھے چارلس ڈارون مل جائے تو میں اس کا گریبان پکڑ کر ، چہرہ نوچ لوں۔ اور اسے کہوں کہ تم ہم میں سے ہو ہی نہیں سکتے۔ تم سب سے الگ نوع ہو۔ یہ ایسی نوع ہے جو اپنی بھی دشمن ہی۔“

ماما اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہو گئی۔

پروفیسر جان کے پاس ان باتوں کا جواب نہیں تھا۔ وہ خود بھی دکھی تھا۔ اس نے ماما کو بہلانے پھسلانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ سچ کہ رہی تھی۔ یوں دونوں کافی دیر دونوں خاموش رہے۔

بیماری نے ماما کو کمزور کر دیا تھا۔ پروفیسر جان کو دیکھ کر ماما میں کچھ دیر کے لئے جو ہمت آئی تھی وہ جاتی رہی۔ اس نے اپنا سر پروفیسر جان کی گود میں رکھ دیا۔

پروفیسر جان نے اسے پیار کیا۔ اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔
ماما سے پروفیسر جان کی یہ آخری ملاقات تھی۔ اور اس ملاقات کے ایک ہفتے بعد ماما مر گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments