چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں


عبداللہ حسین نے اداس نسلیں لکھا، ان نسلوں کی کہانی جن کو کبھی جبری طور پر بھرتی کر کے محاذ جنگ پر بھیجا گیا اور وہ اجنبی زمینوں پر اجنبی دشمن سے نا معلوم مقصد کے لئے لڑتے ہوئے مارے گئے اور کبھی ہجرت کے دکھ سہتے نئے وطن کی آس میں حسین دنوں کے خواب آنکھوں میں سجائے تہہ تیغ کر دیے گئے۔

نیا وطن تو بن گیا لیکن وطن بنتے ہی اس پر ایک قوت نے قبضہ جما لیا۔ جس نے پہلے دن سے ہی اپنی پراکسیوں کے ساتھ مل کر جو اس ملک کے بننے کے ہی خلاف تھیں پوری قوم کو یرغمال بنا لیا۔ قوم کے بچے کبھی دشمن دشمن کھیل کر مروائے گئے، اور کبھی خدا کا نام لے کر جہاد کے نام پر مروائے گئے۔ سوچتا ہوں کہ کوئی عبداللہ حسین ان نسلوں کی بھی کہانی لکھے گا جو ستر سال میں اپنے قبضے کو مستحکم کرنے اور دوام دینے کے لئے مروا دیے گئے، کوئی میکسم گورکی، کوئی ٹالسٹائی ان نسلوں کا بھی نوحہ لکھے گا؟

کبھی انہوں نے لشکر جھنگوی بنائی۔ کبھی تحریک طالبان پیدا کی، کبھی بدر اور الشمس جیسی تنظیموں کو بنایا، کبھی لشکر طیبہ، دفاع پاکستان کونسل کو زندگی بخشی، اور اب تحریک لبیک ان کا بغل بچہ ہے۔

خدارا بس کر دیجئیے ان نسلوں کو جینے دیجئیے۔ ان کو بھی آزاد فضا میں سانس لینے دیجئیے، سورج کو اگتے اور چاند کو نکلتے دیکھنے دیجئیے۔ دن کی روشنی اور رات کے فسوں کو محسوس کرنے دیجئیے۔ خواب دیکھنے اور ان کی تعبیر پانے کی جدوجہد کرنے دیجئے۔ یہ نیم خواندہ نوجوان جو بربریت کی انتہا دکھا کر چہرے پر مسکراہٹ سجائے فخر سے اپنے نام بتا رہے تھے انہیں کس سے داد چاہیے؟ یہ بھی تو اسی ملک کی ماؤں کے بیٹے ہیں آپ انہیں ذلت کی کس انتہا پر لے آئے ہیں، اگر یہ آپ کے اپنے بچے ہوتے تو آپ ان کو یہی بننے دیتے؟ آپ کو اپنی کٹھ پتلی کے لیے اقتدار چاہیے تھا اب اس کی قیمت یہ پوری قوم چکائے گی۔ پاکستان چکائے گا آپ کی خواہش کی قیمت۔

خدا کے لئے ان انتہا پسند تنظیموں کو پالنا بند کر دیجئے۔ اس ملک کی عوام نے، ان بچوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے۔ کیوں ان کی دنیا و آخرت برباد کر رہے ہیں کیوں انہیں انسانوں سے خون آشام بھیڑیوں میں بدل رہے ہیں۔

بیس سال پہلے فوجی جرنیل مشرف کے دور میں اس ملک کے عوام سے ان کی واحد تفریح کرکٹ کو چھین لیا گیا۔ اس کے میدان اگلے بیس سال کے لئے ویران ہو گئے۔ اور آج جو کچھ ہوا پتہ نہیں اس کا خراج اس ملک کو کتنے سالوں تک ادا کرنا ہو گا۔ خدا کے لئے بس کر دیجئیے۔

آج کا وقوعہ پاکستان پر، پاکستان کے عوام کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے۔ کل صبح تمام دنیا کے اخبارات کی یہ ہیڈ لائن ہوگی دنیا کیا سوچ رہی ہوگی کہ یہ کیسے شقی القلب لوگ ہیں، کتنے بے رحم اور جنونی ہیں۔ انسانیت کے نام پر ایک سیاہ دھبہ۔ سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اپنے پاکستانی ہونے پر شرم محسوس ہو رہی ہے۔

جس طرح پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔ اور اب بھی دیا جا رہا ہے۔ اپنے ذاتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے جس طرح مذہب کا ہر معاملے میں بے تماشا استعمال کیا جاتا ہے، یہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ جو چنگاری آپ نے دکھائی تھی آج اس کے شعلے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ جس میں اس ملک کا مستقبل جل رہا ہے۔

کبھی رحمة اللعالمین اتھارٹی بنا کر، کبھی ریاست مدینہ کا نام استعمال کر کے، کبھی توہین رسالت کا نعرہ لگا کر لوگوں کا مذہبی استحصال کیا جاتا ہے۔ ان کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔ لوگوں کو مذہب کی افیم دی جاتی ہے کہ یہ دنیا چار روزہ ہے، اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ پہلے انہیں تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے اور پھر ان کی جہالت کو اپنے شرمناک مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جس بے رحمی سے آج سری لنکن کو قتل کیا گیا یہ صرف آغاز ہے، اگر اسی طرح مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا، اسی طرح ان تنظیموں کی سرپرستی جاری رکھی گئی، اسی طرح مذہب کو ریاستی سطح پر لوگوں کے جذبات انگیخت کرنے کے لئے بروئے کار لایا جاتا رہا۔ اور اسی طرح ووٹ کے حصول کے لئے اللہ کی مقدس آیات اور ریاست مدینہ جیسی مقدس اصلاحات اور ہمارے آقا رسول عربی کا پاک نام بیچا جاتا رہا تو خاطر جمع رکھیں وہ دن دور نہیں جب چوک اور چوراہوں پر ہجوم عدالتیں لگا کر لوگوں کو سرعام جلایا کریں گے۔ توہین کے الزام لگا کر غازی بنا کریں گے۔

شنید ہے کہ پولیس اہلکار خاموشی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ انہیں بھی اسی بے دردی سے مار دیا جائے گا اور حکومت ان دہشت گردوں کو مذاکرات کے نام پر اور ہلا شیری دے گی۔ خدا نہ کرے اگر یہ آگ اور زیادہ بھڑکی تو بچنا آپ نے بھی نہیں، سب کی باری آئے گی۔ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔

ہوش کے ناخن لیجئیے اور اس ملک پر رحم کیجئے اور مذہبی انتہا پسندی کو لگام ڈالیے۔ ان تنظیموں کی سرپرستی بند کیجئیے۔ مذہب کا اپنے مقاصد کے لئے استعمال ختم کیجئیے۔ نہیں تو یقین رکھیں یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ دنیا میں ایک اچھوت بن جائے گا۔ نہ یہاں کوئی آئے گا اور نہ یہاں کے باشندوں کو اپنے ملک میں گھسنے دے گا۔

کاش کوئی ادیب ان نسلوں کا نوحہ بھی لکھے۔ جو گمنام راہوں میں مارے گئے، یا مذہب کے نام پر مروا دیے گئے۔ جن ماؤں نے جنت کی تلاش اور لالچ میں جوان بچوں کے لاشے اٹھائے۔ جو حور سے وصل کی خواہش میں پھٹ گئے۔ جو اے پی ایس میں اسٹریٹجک ڈیپتھ کی بھینٹ چڑھ گئے۔

کوئی تو عبداللہ حسین ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments