کس جنت میں جاؤ گے تم؟


آج ایک سیلفی نے آنکھیں نم کر دی۔ ایک شخص سری لنکن باشندے کی آگ میں جلتی ہوئی لاش کے ساتھ اپنی تصویر بنا رہا ہے جس کو انہوں نے کچھ دیر پہلے توہین مذہب کے نام پر تشدد کر کے ہلاک کیا اور پھر لاش کو سڑک پر لا کر جلا دیا۔ یہ واقعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ کا ہے۔

یہ سری لنکن باشندہ، پریانتھا کمارا، نجی فیکٹری میں مینجر تھا۔ صبح سے فیکٹری میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ اس شخص نے توہین مذہب کی ہے۔ آگے جو ہوا، وہ میں لکھ کر آپ جنتی مسلمانوں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔

میں اس سوچ میں غرق ہوں کہ اب اس سری لنکن شخص کی ماں کو کیا بتایا جائے گا۔ وہ ماں کیسے سمجھ پائے گی کہ کسی مذہب کا کوئی ایسا قانون بھی ہو سکتا ہے۔ اب صاحب دین حضرات، بادشاہوں کے دربار سے اور خوبرو اداکاروں کے جھرمٹ سے نکل کر سری لنکا جائیں اور پریانتھا کمارا کی ضعیف ماں کو اسلام کی تعلیم دیں اور اسے بتائیں کہ مسلمان ہو جاؤ کیوں کہ صرف مسلمان ہی جنت میں داخل ہوں گے۔

مگر سری لنکن ماں ہی کیوں، کیا ہم مشال خان کو بھول گئے ہیں؟ اگر اس وقت مشال خان کے قاتلوں کو کڑی سزا مل جاتی اور ہم اپنے قوانین تبدیل کر دیتے اور اپنے منبر سے محبت اور برداشت کا سبق دیتے تو شاید آج ایک ماں کا بیٹا ان نام نہاد عاشقان رسول کے ہاتھوں اس طرح نہ مارا جاتا۔

یہ لوگ اس نبی ﷺ کے عاشق ہیں جن کو تمام انسانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ جب یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ ﷺ کھڑے ہو گئے۔ صحابہ نے فرمایا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا یہ انسان نہیں تھا۔

جس ملک کی تقریباً ساری آبادی ہی مسلمان ہو، اس ملک میں ان قوانین کے کیا معنی؟ اور کتنا اسلام چاہیے ہمیں؟ جن راہوں پر ہم چل رہے ہیں، یقین مانئے وہ صراط مستقیم کا راستہ نہیں ہے جس کی ہم ہر نماز میں دعا مانگتے ہیں۔ جالب نے کئی سالوں پہلے ہمارے مستقبل کی پیشگوئی کر دی تھی۔

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

اب سب خاموش ہیں۔ سب سہمے ہوئے ہیں۔ فضا میں ایک خوف طاری ہے۔ کوئی حق اور سچ کا ساتھ نہیں دینا چاہتا۔ عالم دین طبقہ ایک مذمت کر کے خاموش ہو گیا۔ آرمی اس جماعت سے مذاکرات کر رہی ہے اور وزیراعظم ان لوگوں سے انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ۔ آنے والے کل کی تصویر اور حکمرانوں کی ترجیحات اب آپ کے سامنے واضح ہو گئی ہوں گی کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔

تعلیم کی کمی، اخلاقی پستی اور غلط عقیدوں کی تقلید نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اور اس پر زعم یہ کہ جنت تو ہماری ہے لیکن کیسے؟

”باپ کو اس کے بیٹے کا، کٹا ہوا سر دیتے ہو
ماں کو اس کی بیٹی کا جلا ہوا تن دیتے ہو
صحنوں کو دالانوں کو، لاشوں سے بھر دیتے ہو
تم کس جنت میں جاؤ گے، کس جنت میں جاؤ گے تم؟
تم وحشی ہو درندے ہو، تم ظالم کے کارندے ہو
تم کالی رات کا سایہ ہو، شیطان کا تم سرمایہ ہو
تم نفرت کا پرچار کرو اور معصوموں پر وار کرو
تم کس جنت میں جاؤ گے، کس جنت میں جاؤ گے تم؟
جنت تو معصومان کی ہے، علم کے طالبان کی ہے
تم قاتل ان شہزادوں کے، تم قاتل ہو استادوں کے
تم قاتل پوری قوم کے ہو، تم قاتل ہی کہلاؤ گے
تم کس جنت میں جاؤ گے، کس جنت میں جاؤ گے تم (عدنان جعفری )

اگر پریانتھا کمارا کے چھوٹے بیٹے نے روز محشر میں نبی ﷺ کا دامن پکڑ لیا کہ آپ کے عاشقوں نے میرے باپ کو بے گناہ مارا تو ان عاشقوں کا کیا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments