لڑکیو! جلدی سے شادیاں کر لو


کیسا کل یگ ہے کہ ہماری لڑکیاں شادی سے بھاگنے لگی ہیں۔ بے چارے والدین۔ ادھر بیٹی نے ذرا قد کاٹھ نکالا نہیں اور ادھر ان کی راتوں کی نیندیں اڑی نہیں۔ مگر آج کل کی لڑکیوں کو اس بات کا کیا احساس۔ ان کے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ والدین کی نیندیں حرام کیے رکھتی ہیں۔

کسی کے سر پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بھوت سوار ہے تو کوئی اپنا کیرئیر بنانے کے خبط میں مبتلا ہے۔ کوئی ابھی شادی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں اور کسی کے ناک پر کوئی رشتہ ہی نہیں بیٹھ رہا۔ کوئی پڑھنے کے لیے بیرون ملک جانا چاہتی ہے اور کوئی زندگی میں کچھ کر کے دکھانا چاہتی ہے۔ یعنی جو کرنے کا کام ہے وہ چھوڑ کر باقی سب کام کرنے ہیں۔

کیا اچھے وقت ہوا کرتے تھے جب بیٹیاں پیدا ہی شادی کے لیے ہوتی تھیں۔ بلکہ خاندان کے کسی مرد سے اگر کچھ اونچ نیچ ہو جاتی تو صلح صفائی کے کام بھی آ جاتی تھیں۔ پنچائتی فیصلے پر ایک آدھ لڑکی فریق مخالف کو تھما کر معاملہ رفع دفع کر لیا جاتا۔ کیا فرمانبردار بچیاں ہوا کرتی تھیں۔ مجال ہے جو اف بھی کر جائیں۔

یوں بھی بالی عمر میں بیاہ دے جانے کے بھی اپنے ہی فوائد تھے۔ دماغ میں خناس نہیں ہوتا تھا۔ عادتیں پکی نہیں ہوئی ہوتی تھیں۔ خاوند اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا کرتے تھے۔ ضد کرتیں تو تھوڑی بہت گوشمالی بھی کر دیا کرتے۔ دیر تک زرخیز رہتیں۔ بارہ چودہ بچے تو آرام سے پیدا کر لیا کرتی تھیں۔ خاوند اور سسرالیوں کی خدمت سعادت سمجھ کر کرتی تھیں۔ خاوند کا موڈ بن جاتا تو تھکن کا بہانہ کر کے جان نہیں چھڑاتی تھیں۔ کنفرم جنتی تھیں۔

اور ایک آج کل کی لڑکیاں ہیں۔ ایک تو پڑھ زیادہ لیتی ہیں، اور پھر لڑکا بھی اپنے ہی جتنا پڑھا لکھا چاہیے ہوتا ہے۔ غلطی تم نے کی اور بھگتیں والدین۔ کس سیانے نے مشورہ دیا تھا اتنا زیادہ پڑھنے کا؟ پڑھنے میں جوانی کے اتنے برس گلا دیے۔ اب قسمت سے کوئی نگ ہاتھ آ رہا ہے تو اچک لو۔

اور یہ کیرئیر کا کیا ٹنٹا ہے؟ جب ایک بندہ تمھارا خرچ اٹھا رہا ہے تو خود سے کمانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہ کون سا بدلے میں کچھ زیادہ مانگ رہا ہے؟ بس دل و جان سے اس کی اور اس کے گھر والوں کی خدمت کرو۔ اس کا بستر گرم کرو۔ اسے یہ نہ کہو کہ اپنا کھانا خود گرم کرے۔ اسے بچے پیدا کر کے دو اور پھر بچوں کو پالنے میں جت جاؤ۔ اللہ للہ خیر سلا۔ ہاں اگر خاوند کا ہاتھ تنگ ہو تو کما کر لانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ آخر میاں بیوی ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ مگر کمانے کا مطلب یہ نہیں کہ برابر کے حقوق بھی مانگے جائیں۔

تو لڑکیو! ابھی بھی موقع ہے سدھر جاؤ۔ لڑکوں کی تعداد پہلے ہی کم ہوتی جا رہی ہے۔ جلدی جلدی شادیاں کرلو۔ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو صرف پچھتاوا ہی رہ جائے گا۔ یہ اعلیٰ تعلیم اور کیرئیر کا کیڑا ذہن سے نکال دو۔ جب گول روٹی ہی بنانا نہ آئی تو ڈگریاں کس کام کی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments