سیالکوٹ واقعہ ہماری اجتماعی غلطیوں اور پالیسیوں کا تسلسل ہے



جمعے کے روز سیالکوٹ میں ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں ایک غیر ملکی شہری کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔ ہلاک ہونے والے شہری کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔ پریانتھا کمارا سری لنکن شہری تھے۔ یہ سیالکوٹ کے وزیر آباد روڈ پر واقع ایک نجی فیکٹری میں بحیثیت جنرل مینیجر کے خدمات انجام دے رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہجوم ایک انتہائی تشدد زدہ لاش کو سڑک پر گھسیٹ کر لاتا ہے اور پھر سینکڑوں افراد کی موجودگی میں اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔

وہاں موجود سینکڑوں افراد پریانتھا دیاوادانا کو قتل کرنے والے افراد کی ستائش کرتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل ہجوم اور واقعے کے وقت موجود دیگر سینکڑوں افراد ویسے ہی نعرے لگا رہے تھے جیسے نعرے تحریک لبیک پاکستان کے کارکن اپنے دھرنوں اور جلسوں میں بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات عائد کر کے ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیے جانے کے واقعات تواتر سے سامنے آتے ہیں تاہم ایسا کم ہی ہوا ہے کہ یوں کسی غیر ملکی شہری کو قتل کیا گیا ہو۔

سیالکوٹ میں ہسپتال ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایک انتہائی بری طرح جلی ہوئی لاش لائی گئی تھی۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ’لاش تقریباً راکھ ہی بن چکی ہے۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے، جن کے کردار کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج سے کیا جا رہا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ سیالکوٹ واقعہ ہماری قومی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔

یورپی یونین کی پاکستان میں سفیر ایندرولا کمینارا نے اسے ایک خوفناک حملہ قرار دیا ہے۔ یورپین یونین میں اس واقعہ کے حوالے سے انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے انتہائی منفی تاثر گیا اور اس خبر کو دنیا بھر کے اخبارات نے نمایاں کر کے شائع کیا۔ پرتشدد اور انتہا پسندی پر مبنی واقعات سے ہماری داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر نہ صرف ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ دنیا ہمیں منفی انداز میں اجاگر کر کے تنقیدی سوالات بھی اٹھاتی ہے۔

اس واقعہ کے بعد حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جانب سے روایتی مذمتی بیانات سامنے آئے۔ ہمارے حکمران اور ریاست گزشتہ کئی دہائیوں سے مذہبی شدت پسندوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ شدت پسندی کی اس فضا کو پروان چڑھانے اور پاکستانی معاشرے کو انتہا پسندی کو پروان چڑھا نے میں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہے۔ شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی میں ہماری سیاسی اور نام نہاد جمہوری حکومتیں ہمیشہ ہی تذبذب کا شکار رہی ہیں کیونکہ کسی نہ کسی طرح ان کے مفادات اس طبقے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، مثلاً ووٹ بینک اور اپنی مقبولیت برقرار رکھنا وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی جڑیں سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوران جہاد میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستانی تاریخ کا انتہائی درد انگیز باب وہ ہے جب پاکستانی سوسائٹی اوندھے منہ شدت پسندی کے اندھے کنویں میں جا گری۔ دو عالمی طاقتوں نے اپنی جنگ لڑنے کے لیے اس خطے کا انتخاب کیا اور دو ہاتھیوں کی لڑائی میں اس خطے کی برداشت اور روادارانہ روایات کو کچل کے رکھ دیا گیا۔ یہ جنگ یوں تو روس اور امریکا کی تھی، مگر اس جنگ میں ہم سانجھے دار بن گئے اور ہمارے معاشرے میں موجود شدت پسندی کی تمام نمائندہ قوتیں جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں متحد ہو گئیں۔

یوں پورا ملک شدت پسندوں کی آماجگاہ بن کر رہ گیا۔ یوں پاکستان میں شدت پسندی کی فصل پکتی رہی اور اس سے وابستہ عناصر کو بڑھاوا ملتا رہا۔ تنگ نظری، اپنے مذہبی حریفوں سے نفرت، عدم برداشت اور جارحیت ہمارے مزاج کا حصہ بنتی رہی اور ہم دنیا سے کٹتے کٹتے اپنے خول میں بند ہوتے چلے گئے۔ سیالکوٹ کا واقعہ دل خراش اور دل دہلا دینے والا ہے، جب ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتیں مسلح مذہبی جنونیوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کریں گے، عوام میں مذہبی منافرت پھیلا کر ایک دوسرے کا ووٹ تقسیم کرنے کی خاطر انہیں گلدستے اور مٹھائیاں پیش کریں گے تو سیالکوٹ جیسے واقعات پھر معمول ہی بنیں گے۔

آج تک پاکستان میں اٹھنے والی ہر شدت پسند تحریک اپنے مقاصد کے لیے مذہب کا نام استعمال کرتی آ رہی ہے تاکہ اکثریت کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ بیرونی طاقتیں بھی پاکستان میں اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے مذہب ہی کو آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، اور ریاست و عوام کے خلاف بر سر پیکار قوتوں کی مالی سرپرستی بھی مذہب کے نام پر ہی کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ایک پوری معیشت وجود میں آ چکی ہے۔ آج ہمارا ایسا کوئی قومی ادارہ نہیں بچا جہاں شدت پسندی کسی نہ کسی شکل میں موجود نہ ہو۔

اب شدت پسندی کا یہ زہر ہمارے قومی وجود کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے۔ شدت پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق ایک خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار دکھائی دیتا ہے کہ یہاں شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔ شدت پسندی نے پورے معاشرے اور ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ آج ہماری بقا صرف اس میں ہے کہ ہمیں شدت پسندی کو ختم کرنے کی ہر کوشش کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ہم عالمگیر معاشرے کا حصہ بن سکیں اور جدید دنیا کے شانہ بشانہ چل سکیں۔ بدقسمتی سے اس شدت پسندی کے باعث مسلمان معاشرے عام انسانی معاشروں سے پیچھے جاتے جا رہے ہیں، اس تنہائی کے سبب ہماری اپنی اصل شناخت گم ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ہم کو بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری عزت ہو۔ تو ہم کو اپنی ترجیحات کا از سرے نو جائزہ لینا پڑے گا۔ مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کے لئے بحیثیت قوم ہمیں عملی اقدامات کر کے ہی اگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی میں بحیثیت قوم ہم نے بار بار اس حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کی ہے۔

ہر نئی حکومت نے اس حوالے سے قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ جس کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں۔ ماضی میں ضیاء الحق نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے انتہا پسندی کو پروان چڑھایا۔ مشرف نے اعتدال پسندی کی پالیسی اپنائی اس کے بعد اب موجودہ حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات ملک کو مذہبی انتہا پسندی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ہماری بار بار اس حوالے سے پالیسیاں تبدیل کرنی کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں۔ ہمیں انتہا پسندی یا اعتدال پسندی میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا اس سے پہلے کے وقت ہاتھ سے نکل جائے اور بہت دیر ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments