خوشامدیوں سے دور رہیے، ورنہ!


مولا علی مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں فرماتے ہیں کہ ”لوگوں کی اس طرح تربیت کرو کہ وہ تمہاری بے جا مدح و ثناء نہ کریں۔ چاپلوسی نہ کریں اور ایسے کاموں پر تمھیں نہ سراہیں جو تم نے انجام ہی نہ دیے ہوں۔ کیونکہ حد سے زیادہ ستائش انسان کو خود پسند بنا دیتی ہے اور آدمی کو غرور و نخوت میں مبتلا کر دیتی ہے۔

تعریف ہر انسان کو پسند ہوتی ہے، تعریف یعنی کسی شخصیت کے خاص پہلو کو بیان کرنا۔ تعریف سامنے بھی ہو سکتی ہے اور پیچھے بھی۔ سیانے کہتے ہیں کہ حقیقی تعریف تو پیٹھ پیچھے ہی جچتی ہے ورنہ سامنے والی تعریف خوشامدی کا درجہ رکھتی ہے۔ جی ہاں تعریف ویسے تو اچھی بات ہے لیکن اگر سامنے ہو تو شک بھی ہوتا ہے کہ آیا یہ تعریف ہے یا پھر خوشامد؟

خوشامدی سلسلہ کا سب سے بڑا مظاہرہ دیکھنا ہے تو کسی جلسے میں چلے جائیں جہاں دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت اپنے لیڈر کی ایسی ایسی تعریفیں کرتے دکھائی دیں گے کہ آپ ششدر رہ جائیں گے۔ خوشامدی کی مختصر تعریف یہ ہوتی ہے کہ جھوٹی تعریفیں کرتا ہے، یعنی کسی ایسی بات پر تعریف کرتا ہے جو صاحب تعریف شخصیت میں موجود نہیں ہوتی ہے۔

پاکستان میں اس طرح کے بہت سے لوگ بالخصوص لیڈران ہیں جن کے آس پاس درجنوں خوشامدی موجود رہتے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی مثال عمران خان صاحب کی ہے۔ کیونکہ عمران خان صاحب خود بھی نرگسیت کا شکار ہے اس لئے ان کو اپنے آس پاس ایسے لوگ رکھنا اچھا لگتا ہے جو ان کے ہر کام پر واہ واہ کریں اور ان کی غلط چیزوں کو بہترین بتائیں۔ یعنی اس سے انھیں یہ محسوس ہو گا کے میرا کام پرفیکٹ ہے یعنی آئی ایم پرفیکٹ۔ یہ مثال عمران خان کے ساتھ ساتھ نواز شریف پر بھی خوب جچتی ہے۔

ہر بڑے عہدے والا کا مشیر بھی ہوتا ہے وہ مشیر آفیشل بھی ہو سکتا ہے اور غیر آفیشل بھی۔ مشیر کا کام مشورہ دینا ہوتا ہے اور اس سے عہدے لئے بھی جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کے جس لیڈر یا سربراہ مملکت کے مشیر خوشامدی ہوئے وہ ناکام ہو گیا اور بدنام بھی، مگر جس کے مشیر خوشامدی نہ تھے وہ کامیاب بھی ہوا اور تاریخ میں نام بھی ہوا۔ کیونکہ مشیر اگر خلوص کے ساتھ مشورہ دے گا تو اس کے لیڈر کو ہی فائدہ ہو گا۔

خوشامدی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک قسم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر جھوٹی تعریف کروں تو فائدے میں رہوں گا، وزرات بھی رہے گی اور طاقت بھی رہے گی۔ اسی طرح خوشامدی طبقے کی دوسری قسم یہ کام فائدے کے لئے نہیں کرتی مگر یہ کہ انھیں لگتا ہے کہ موصوف میں جو خوبیاں ہیں یہ حقیقت میں ہے۔ اس فکر کا بڑا سلسلہ جھوٹے پیری مریدی سلسلے میں نظر آئے گا کہ جب اندھے عقیدت مند طرح طرح کی خوبیاں اور معجزات اپنے پیر سے جوڑ رہے ہوں گے ۔

خوشامد کرنے والا دراصل شخصیت پرستی کرتا ہے جو کہ بت پرستی سے بھی خطرناک شکل اختیار کر جاتا ہے۔ کیونکہ بت پرستی میں بے روح بت کو کوئی فکر نہیں ہوتی البتہ شخصیت پرستی میں متعلقہ شخصیت پر ایک سحر طاری ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو بڑا اور برتر سمجھنے لگتا ہے اور دوسرے انسان سے اپنے آپ کو بہت بلندی پر محسوس کرتا ہے اور دوسرے انسانوں کو کم تر سمجھتا ہے۔

جھوٹی تعریفیں انسان کے اندر غرور کا بیچ بو دیتی ہے۔ ان تعریفوں کو حقیقت سمجھ کر اس کا شکار ہوجانا خود فریبی کہلائی جاتی ہے۔

خوشامد کرنے والا شخص ظاہر میں آپ کا دوست ہوتا ہے مگر باطن میں آپ کا دشمن ہوتا ہے کیونکہ اس کی جھوٹی باتیں آپ کی شخصیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جو شخص خوشامدیوں کی تعریف کو حقیقی تعریف سمجھتا ہے وہ دراصل بے وقوف ہوتا ہے اور جو خوشامدیوں سے دور رہتا ہے وہ ہی حقیقت میں عقل مند ہوتا ہے۔ یعنی احمقوں سے دور رہیے تاکہ عقل مند شمار کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments