ریاست کے پالے ہوئے خونخوار چوہے


یہ ریاست کے پالے خونخوار چوہے ہیں جو اب اتنے شیر ہوچکے کہ اس کی جڑوں کو ہی کتر رہے ہیں، ریاست نے انہیں خود خون پلا پلا کر پالا ہے اور اب نوبت یہ آ گئی ہے کہ ریاست خود ان چوہوں کے ہاتھوں بے بس ہے وہ جس کو دل چاہے چیر پھاڑ کھائیں، آگ لگائیں اور لبیک یا رسول اللہ کا نعرہ لگا کر خون چاٹ جائیں، یہ وقت آنا ہی تھا کیونکہ اس جن کو بوتل سے خود ہی آزاد کیا گیا ہے اور بڑی محنت سے کیا گیا ہے۔ حرمت مذہب کا ایسا خوفناک بیانیہ تشکیل کیا گیا ہے کہ اب جو چاہے کسی کو جب مرضی مار دے۔ منتشر بے لگام ہجوم کے آگے ریاستی ادارے بے بس ہو جاتے ہیں، مگر رونا پھر یہی ہے کہ ایسی قوتوں کو ریاستی ادارے خود خون کی چاٹ لگا لگا کر اپنے عزائم کے لیے پالتے ہیں، یہ تحریک لبیک جو کل تک کالعدم تھی اسے وجود دے کر عوامی اکھاڑے میں اترنے کی اجازت دے دی گئی ہے جہاں یہ اپنے مشتعل بیانیے سے آگ لگانے اور مزید ذہن سازی میں مکمل آزاد ہوں گے۔

یہاں ایک بے رحم سوال ضرور سامنے آتا ہے کہ کیا اس بے لگام ہجوم کی مزید ذہن سازی ممکن ہے؟ یہ سوچ سمجھ اور میرے نبی کی رحمت و عفو کے ہر پہلو سے عاری ہجوم جو کسی بھی زندہ انسان کو تشدد سے ہلاک کر کے اسے سر بازار آگ لگا دے کیا اس انتہا سے آگے کوئی مقام باقی ہے؟

یہاں سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ منبر کیوں مجرمانہ غفلت کا حصہ بنا رہا؟ کیوں عوام کی ذہن سازی میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا؟ سیرت رسول تو ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں میرے پیغمبر نے اپنے دشمنوں کو، دشنام طرازوں کو، پتھر پھینکنے اور کوڑا پھینکے والیوں کو اپنے حسن اخلاق سے موم کر لیا تو منبر رحمت و عفو کے ان واقعات کی تشہیر کرنے کی بجائے عوام کو زہریلے بیانیے سے کیوں نیلا کر رہا ہے؟ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آخر اس کے پیچھے وہ کون سے عزائم تھے جنہیں پورا کرنا ضروری ہے اور کیا یہ سمجھا جائے کہ مذہب ہمیشہ ’‘ حکومت وقت ”کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے؟ فیض آباد دھرنے میں اسی بے ہنگام ہجوم کو لفافوں کی تقسیم تو یاد ہوگی؟ پھر سلمان تاثیر گورنر پنجاب کے قتل ناحق پہ ممتاز قادری کو اک مکتبہ فکر کا ہیرو بنا دینا بھی یاد تو ہو گا؟ کیا اس سوچ کے تدارک کی ضرورت نہ تھی؟

یہ سوال اپنی جگہ بہت کڑا اور اہم ہے کہ ہمارا منبر اس سوچ کی آبیاری کے لیے استعمال کیوں ہونے دیا گیا؟ اس مہلک سوچ کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ جب جس کا دل چاہے حرمت مذہب کی آڑ بنا کر کسی کو بھی قتل کر دیا جائے اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ تحریک لبیک کے ہاتھ اتنے مضبوط کیوں کیے جا رہے ہیں کہ فیکٹری میں مشین سے اس کا سٹکر صاف کرنے کی پاداش میں پراسرار ہاتھ متحرک ہو جاتے ہیں اور ایک ہجوم کو مشتعل کرنے کا باعث بن جاتے ہیں جو یقیناً معاملے و مدعے سے بے خبر ہوں گے اسی طرح جس طرح ممتاز قادری وقوعے سے انجان تھا وہ نہیں بتا سکا تھا کہ اس نے گورنر کا قتل کیوں کیا۔

سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس مشتعل جاہل اور بے ہنگام ہجوم میں کیا کوئی ایک بھی انسان نہیں تھا جو ایک انسان کے بے دردانہ قتل پہ اور پھر اس کے نذر آتش کیے جانے پہ آنکھیں نم کر لیتا؟ جبکہ موجود ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ بے حسی سے سیلفیز لے رہے ہیں۔

کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ یہ عوامی ذہنیت خطرے کا وہ الارم ہے جو پانی سر سے اوپر گزر جانے کی منادی دے رہا ہے؟

اور آخری سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی طور پہ یہ کون مانے گا کہ یہ لوگ رحمت اللعالمین کے ماننے والے ہیں۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ اب ایف اے ٹی ایف ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ کیا ہم گرے لسٹ میں ہی رہیں گے یا ہم بلیک لسٹ میں چلے جائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments