سٹاکر ویئر: آپ اپنے فون میں موجود جاسوسی کے سافٹ ویئر کو کیسے پکڑ سکتے ہیں؟

آئیوانا ڈیویڈووچ - بزنس رپورٹر، بی بی سی نیوز


جاسوسی
گوگل نے اب کئی ایسے اشتہار ہٹا دیے ہیں جن کی مدد سے جاسوسی کے سافٹ ویئر فروخت کیے جا رہے تھے
ماریہ کہتی ہیں کہ وہ امریکہ کے مشرق میں ایک اچھے کیتھولک خاندان میں پلی بڑھی تھیں۔ ہر اتوار ان کے گھر رات کے کھانے کی دعوت ہوتی تھی۔ ان کے والدین کی شادی شدہ زندگی اچھی تھی اور وہ اپنے تعلقات میں بھی ایسی ہی عزت اور قربت دیکھنا چاہتی تھیں۔

جب ان کی عمر 20 سال سے زیادہ ہوئی تو انھیں اپنا شریک حیات مل گیا اور ایسا لگا جیسے یہی سچی محبت ہے۔

مگر ان کی زندگی سے رومانس بہت جلد ختم ہو گیا اور یہ 25 سالہ بدسلوکی اور استحصال کی کہانی میں تبدیل ہوگیا۔ پہلے انھیں بُرے ناموں سے پکارا جانے لگا۔ پھر ان کے شوہر نے ان کے مالی معاملات، نقل و حرکت اور تینوں بیٹوں پر مکمل کنٹرول جما لیا۔

ان کے خاوند کو ایسی نوکری پر اعتراض تھا جہاں دوسرے لوگوں سے رابطہ ہو۔ ان کے کمپیوٹر استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’وہ مجھے روز موٹی کہتے تھے۔ غصے میں وہ مجھے گھر سے باہر نکال کر دروازہ بند کر دیتے تھے۔‘

مالی استحصال روز بروز بڑھتا گیا۔ پہلے ان کی صفائی کی ملازمت سے ان کی تنخواہ چھین لی گئی۔ پھر ان کے شوہر نے ان کا سوشل سکیورٹی نمبر استعمال کرتے ہوئے ان کے نام پر کریڈٹ کارڈ حاصل کر لیا۔

چھ سال قبل ماریہ یہ سن کر ٹوٹ گئیں کہ وہ انھیں زندہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ اپنے خاندان اور چرچ کی مدد سے انھوں نے آہستہ آہستہ اس شادی سے باہر نکلنے کا منصوبہ بنا لیا۔

ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں جب ان کا گروی گھر چلا گیا تو وہ اپنی بہن کے پاس رہنے لگیں۔ انھیں پہلی بار لیپ ٹاپ مل گیا اور انھوں نے ایک فیس بُک اکاؤنٹ بنایا۔ وہ ڈیٹنگ کرنا شروع ہو گئیں۔

لیکن جلد ایسا ہوا کہ ان کے سابقہ شوہر ان کے نئے پارٹنر کو ان کے ذاتی میسجز دکھانے لگے۔ ان کے سابقہ شوہر ہر اس جگہ پہنچ جاتے جہاں وہ جاتی تھیں۔

ایک بار انھوں نے اچانک موٹر وے پر انھیں اپنے پیچھے کار پر آتے دیکھا۔ وہ ڈر گئیں کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے اور شاید ان کے پاس بندوق بھی ہوگی۔ اس ڈر سے انھوں نے پولیس سے رابطہ کر لیا۔

اگرچہ انھوں نے اپنے سابقہ شوہر کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کیا مگر پیچھا کرنے کے واقعات ختم ہو گئے اور انھوں نے ان سے مزید دوری اختیار کر لی۔

اس دوران انھیں معلوم ہوا کہ ان پر ایک سافٹ ویئر کے ذریعے جاسوسی کی جا رہی تھی۔ وہ ’سٹاکر ویئر‘ کے متاثرین میں سے تھیں۔

سٹاکر ویئر ایسا سافٹ ویئر ہوتا ہے جس کی مدد سے ایک شخص کسی کی ڈیوائس (جیسے موبائل فون) کے ذریعے ان کی جاسوسی کرسکتا ہے۔

آپ کے فون میں جاسوسی کرنے والی ایپس تو نہیں؟

ایسے سافٹ ویئر کی مدد سے کوئی شخص کسی دوسرے کے فون کے میسجز، لوکیشن، تصاویر اور فائلز تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ فون کے قریب ہونے والی گفتگو بھی سن سکتا ہے۔

جاسوسی

CAS
ایوا گیلپرن کہتی ہیں کہ گھریلو تشدد کے معاملات میں ٹیکنالوجی کچھ نہ کچھ حد تک ضرور استعمال ہوتی ہے

اس مسائل سے نمٹنے کے لیے ایوا گلپرن نے سنہ 2019 میں سٹاکر ویئر کے خلاف ایک تنظیم (کولیشن اگینسٹ سٹاکر ویئر) قائم کی تھی۔

اطلاعات کے مطابق ریپ کے کئی مبینہ متاثرین کو ڈر رہتا ہے کہ انھیں نشانہ بنانے والے لوگ ٹیکنالوجی کی مدد سے دوبارہ ان کی زندگی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے ایوا نے اس کے خلاف اقدامات کا فیصلہ کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب کسی کے پاس آپ کے فون تک رسائی ہو تو استحصال کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں، مثلاً متاثرین کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی نجی تصاویر شیئر کریں۔

ایوا کے مطابق گھریلو تشدد کے جتنے بھی معاملات ان کی نظر سے گزرتے ہیں ان میں ہمیشہ کسی طرح کی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہراسانی کی جاتی ہے اور اس میں اکثر سٹاکر ویئر بھی شامل ہوتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ سب پُرتشدد کیسز سے جڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ زبردستی کنٹرول حاصل کرنے کا طاقتور ہتھیار ہے۔‘

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ سٹاکر ویئر جیسے سافٹ ویئرز کا اضافہ ایک بڑی مشکل ہے۔ نورٹن لیبز کی ایک تحقیق کے مطابق ستمبر 2020 سے مئی 2021 کے دوران ایسی ڈیوائسز کی گنتی 63 فیصد تک بڑھی جن میں سٹاکر ویئر انسٹال ہو چکا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق یہ بڑا اضافہ لاک ڈاؤن کے اثرات کی وجہ سے ہو سکتا ہے جب لوگ زیادہ وقت گھروں میں رہنے لگے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق ’ذاتی اشیا ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب ہی ہوتی ہیں۔ اس سے کسی مجرم کے پاس موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے پارٹنر کی ڈیوائس پر سٹاکر ویئر انسٹال کر دے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ان کا استحصال کرے۔‘

گذشتہ دو برسوں کے دوران ایوا نے اینٹی وائرس کمپنیوں کو راضی کر لیا ہے کہ وہ اس طرح کے خطرناک سافٹ ویئر کو زیادہ سنجیدگی سے لیں۔ اس طرح سٹاکر ویئر کو ناپسندیدہ پروگرامز یا میلویئر کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔

اکتوبر میں گوگل نے ایسے کئی اشتہارات کو ہٹایا ہے جن کے ذریعے اپنے پارٹنرز کی جاسوسی کا سافٹ ویئر بیچا جا رہا تھا۔

ان ایپس کو اکثر یہ کہہ کر فروخت کیا جاتا ہے کہ یہ ان والدین کے لیے ہے جو اپنے بچے کی حرکات و سکنات اور پیغامات کی نگرانی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر بعض لوگ انھیں اپنے پارٹنر پر جاسوسی کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔

جاسوسی

امریکی حکام اب ایسے سافٹ ویئر فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں

ان میں سے ایک ایپ ’سپائے فون‘ پر ستمبر میں امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) نے پابندی لگا دی تھی کیونکہ یہ لوگوں کی ڈیوائس کو ہیک کر کے ان کا ذاتی ڈیٹا چراتی تھی اور ان کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کی معلومات فراہم کرتی تھی۔

ان مثبت اقدامات کے باوجود کچھ سٹاکر ویئر ایپس اور انھیں استعمال کرنے کی ترکیب اب بھی آسانی سے آن لائن دستیاب ہے۔

ایوا کے مطابق ایف ٹی سی اب صارفین کی اجازت کے بغیر فون کی لوکیشن ڈیٹا کی خرید و فروخت کے مسئلے پر تحقیقات کر رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسی ٹیکنالوجی پرائیویٹ جاسوسوں کے لیے بہت مضبوط ہتھیار ہوتا ہے جسے وہ اپنے ہدف کی لوکیشن تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سٹاکر ویئر کو کچھ ایسے بنایا جاتا ہے کہ ان کا پتا چلانا مشکل ہو، اس لیے ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والے لوگ بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک متاثرہ خاتون شارلیٹ (فرضی نام) خود سائبر سکیورٹی کی سینیئر تجزیہ کار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہم سب کی جیب میں ایک جاسوس ہے؟

وہ جاسوس ٹیکنالوجی جو ہم سب استعمال کر رہے ہیں

دوسری جنگ عظیم کی وہ جاسوس جن سے نازی ’ڈرتے‘ تھے

کیا موبائل فون واقعی خفیہ ریکارڈنگ کرتے ہیں؟

اپنی منگنی کے کچھ عرصے بعد انھیں احساس ہوا کہ ان کے فون کے ساتھ عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اس کی بیٹری بہت جلد ختم ہو جاتی تھی اور فون اچانک ری سٹارٹ ہوتا تھا۔ یہ دونوں علامات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ فون میں ممکنہ طور پر سٹاکر ویئر انسٹال ہے۔

بات تب واضح ہوئی جب ان کے پارٹنر نے بتایا کہ انھیں ہر وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ آخر کار شارلیٹ نے اس راز سے پردہ اٹھا لیا۔

ماہرین کی رائے حاصل کرنے کے لیے وہ ہیکرز کی ایک تقریب میں گئیں۔ ان کے پارٹنر بھی اسی صنعت سے وابستہ تھے اور انھیں کچھ چہروں کی پہچان تھی۔

انھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اپنے پارٹنر کو ٹریک کرنے کی روایت کئی لوگوں کے لیے قابل قبول ہے۔

اسی تناظر میں وہ سائبر سکیورٹی کے شعبے میں آ گئیں تاکہ صنعت میں دوسری آرا کی بھی نمائندگی ہو سکے۔

جاسوسی

ٹیکنالوجی کی دنیا میں کچھ لوگوں کو پارٹنر کی جاسوسی کے تصور میں کچھ غلط محسوس نہیں ہوتا

انٹرنیٹ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسی کئی سروسز ملیں گی جو دعویٰ کرتی ہیں کہ آپ کسی کے سمارٹ فون کو صرف ان کے فون نمبر کی مدد سے ہیک کر سکتے ہیں۔ عام طور پر اس کے عوض کرپٹو کرنسی میں کچھ سو امریکی ڈالر مانگے جاتے ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس صلاحیت والے سافٹ ویئر موجود ہوں مگر سائبر سکیورٹی کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ویب سائٹس فراڈ ہو سکتی ہیں۔

شارلیٹ کے مطابق سٹاکر ویئر ایپس ’سوشل انجینیئرنگ‘ پر مبنی ہوتی ہیں جسے لوگ سمجھ کر ان سے بچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہدف بننے والے لوگوں کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا جائے جس میں موجود لنک پر کلک کروایا جا سکے یا پھر اگر کوئی ایسی جعلی ایپ ڈاؤن لوڈ کر لے جو ان کے ساتھ شیئر کی جائے۔

شارلیٹ کہتی ہیں کہ اگر آپ کوئی مشکوک ایپ ڈیلیٹ کرنے کی کوشش کریں اور وہ آپ کو تنبیہ دے تو ’ڈریں مت‘۔

’بعض اوقات وہ ڈرانے کی تکنیک استعمال کرتے ہیں تاکہ صارفین وہ سافٹ ویئر ڈیلیٹ نہ کر سکیں۔ وہ کئی طرح کی سوشل انجینیئرنگ کی تراکیب استعمال کرتے ہیں۔‘

ہر چیز کی ناکامی کی صورت میں شارلیٹ کا مشورہ ہے کہ آپ اپنے فون کو فیکٹری ری سیٹ کریں، تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پاس ورڈ بدل دیں اور تمام اوقات میں ’ٹو فیکٹر‘ تصدیق کا استعمال کریں۔

جاسوسی

ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی مشکوک ایپ کو ڈیلیٹ کرتے ہوئے ڈرنا نہیں چاہیے

تو اس مسئلے کے حل کا بہترین طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟

اکثر ملکوں میں کسی کی جاسوسی کرنے کے خلاف کسی طرح کے قوانین موجود ہیں۔

مثلاً فرانس میں 2020 میں گھریلو تشدد کے خلاف ایک نیا قانون متعارف کروایا گیا جس میں جاسوسی اور اجازت کے بغیر لوکیشن ٹریک کرنے پر ایک سال قید کی سزا اور 45 ہزار یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ اگر اس عمل میں آپ کا پارٹنر ملوث ہوتا ہے تو جرمانہ دگنا ہوگا۔

ایوا کے مطابق نئی قانون سازی سے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

مثلاً ان کے مطابق گوگل اور ایپل اپنے سٹورز پر ایسی ایپس کی خرید و فروخت بند کر سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ پولیس کو بھی بہتر تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ ایسے مسائل کو زیادہ سنجیدگی سے لیں۔

ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ’جب متاثرین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جاتے ہیں تو انھیں توقع ہوتی ہے کہ قانون کا نفاذ کیا جائے گا۔ مگر انہی سے تفتیش شروع ہو جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

سائبر جاسوسی میں اضافے سے گھریلو تشدد کے متاثرین کے لیے نئی سہولیات شروع کی جا رہی ہیں۔

کلینک ٹو اینڈ ٹیک ابیوز یا سیٹا امریکہ میں کورنیل یونیورسٹی سے منسلک ایک ایسا ادارہ ہے جہاں متاثرین کی مدد کی جاتی ہیں اور ٹیکنالوجی کے غلط استعمال پر تحقیق ہوتی ہے۔

سیٹا سے منسلک روزینا بلینی کہتی ہیں کہ بعض اوقات وہ متاثرین کے فون سے فوراً سٹاکر ویئر ہٹانے کی تجویز نہیں دیتے بلکہ وہ پہلے عملے کی مدد سے متاثرین کو حفاظتی تربیت دیتے ہیں۔

تجربات سے پتا چلا ہے کہ اگر متاثرین کے فون سے اچانک انھیں ڈیلیٹ کر دیا جائے تو تشدد کے واقعات بڑھ بھی سکتے ہیں۔

ماریہ کو اپنے شوہر سے الگ ہوئے اب چھ سال ہوچکے ہیں۔ حالات بہترین نہیں لیکن اچھی سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب میرے کسی اور کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جو میری فکر کرتا ہے اور میرا ساتھ دیتا ہے تاکہ میں اپنی کہانی بیان کر سکوں۔‘

وہ اب بھی اپنے فون کو لے کر اچانک پریشان ہو جاتی ہیں۔ ان میں پی ٹی ایس ڈی یا صدمے کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ دیگر متاثرین کو بتانا چاہتی ہیں کہ سائبر جاسوسی بہت بڑی چیز ہے اور وہ اس سفر میں تنہا نہیں۔

’ڈریں مت۔ آپ کے لیے مدد موجود ہے۔ مجھ میں کافی بہتری آئی ہے۔ 56 سال کی عمر میں اگر میں یہ سب کرسکتی ہوں تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments