جب زندہ آنکھیں قتل ہوئیں


وہ آنکھوں والی بستی سے آیا تھا۔ اسے ادراک تھا کہ جس سرزمین پر وہ مہمان بنا کر لایا گیا ہے وہ عظیم دانشوروں کی سر زمین ہے۔ یہاں عظیم مفکر اقبال نے آنکھ کھولی جس کی شاعرانہ پرواز تیز نظر شاہینوں کے ساتھ اڑان بھرتی ہے۔ یہ فیض کی جنم بھومی ہے جو دنیا بھر کے انسانوں کو امن کا پیغام دیتا ہے اور نفرت کو بھی محبت کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اسے پتہ تھا کہ اس کے میزبان شہر کی خوشحالی کا چار کھونٹ ڈنکا بجتا ہے۔ یہاں کے ہر فرد کی مالی حالت باقی سارے علاقوں سے بہتر ہے۔

دنیا کے نامور میگزین اس کی معاشی طاقت کی گواہی دیتے ہیں۔ یہاں کے شہری اتنے خوشحال ہیں کہ جہازوں کی اڑان کے لیے اپنا ائر پورٹ خود بنا کر مثال قائم کر دیتے ہیں۔ یہ سب اس روشن آنکھوں والے مہمان کو پتہ تھا۔ جو اسے نہیں پتہ تھا وہ یہ کہ اہل شہر جب عدالت لگانے پہ آئیں توسر بازار ان کی نعشیں سڑکوں پر گھسیٹ سکتے ہیں جنہیں وہ مجرم سمجھتے ہیں۔ کچھ حاسدوں نے ایسی ہی دل دہلا دینے والی دور شہر کی خبریں بھی کان میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن خوش یقین مہمان کا دل میلا نہ ہوا۔

خیر یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب اس کے جسم کا رواں رواں سلامت تھا اور بدن میں روح آرام سے مقیم تھی۔

اب تو اس نے دیکھ لیا تھا کہ دشمن سائے تیزی سے پھیلتے ہوئے اس کے بدن کی دھوپ کو کھانے آ رہے ہیں۔ وہ عقل والوں کے شہر کا مسافر تھا، اس نے سمجھ لیا کہ منصوبہ ساز وحشیوں کے جنونی ہتھوڑے جو اس کی ہڈیوں کو سرمہ بنانے کے لیے اٹھے ہیں نیچے نہیں ہوں گے۔ جب خنجر بدست دو ٹانگوں والی مخلوق نے اسے گھیرا تو وہ جان گیا کہ زندگی کے دوپہر بھرے جنگل میں شام ہو چکی ہے۔ درندوں کے غول اس کی جانب بڑھے تو اسے دور اپنے دیس میں انتظار کی دہلیز پر بیٹھی بیوی کی آنکھوں میں دیے بجھتے ہوئے نظر آئے۔

جسم پر تازیانے لگے تو اپنے بچوں کی معصوم ہنسی کا دھیان لگا کر درد کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وحشیانہ وار کرنے والوں نے ایک لمحے کا وقفہ نہ رکھا کہ وہ ڈوبتی آنکھوں میں اپنے دیس کو چھوڑتے وقت کے آخری منظر بھر لیتا۔ جب اس کے سوختہ بدن سے دھواں دھواں روح نکل کر آسمان کی جانب پرواز کر گئی تو نور بھرے فرشوں نے اپنی باری پہ اسے خالق کائنات کے حضور پیش کیا۔

خدا نے پوچھا کہ کیا اسے اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟ اس پر سکون روح نے کہ جس کی جسمانی سزاؤں کی تکلیف کا احساس نیچے قاتل وحشی کثافتوں میں کہیں دب گیا تھا، سر جھکا کر کہا کہ یا رب العزت! مجھے ایک ہی شکایت ہے کہ میرے اندھے قاتلوں نے مرنے والے کی آخری خواہش نہ پوچھی اگر پو چھتے تو میں اپنی بینائی بھری جوان آنکھیں انہیں عطیہ کر جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments