”جان دو، جان لو“


کیسا خوش کن تصور رواج پا گیا ہے۔ ”جان دو پھر بھی جنت۔ جان لو پھر بھی جنت“ ۔ اور مسلمانوں کے لیے تو آخری، حقیقی اور حتمی کامیابی ہے ہی جنت کا حصول۔ پھر وہ چاہے جس طرح بھی ملے۔ اور ”جان دو، جان لو“ جیسا شاندار شارٹ کٹ دستیاب ہونے کی صورت میں کوئی کیوں کر عمر بھر اسوہ رسول ﷺ کے مطابق اعمال کی انجام دہی کے جوکھم اٹھائے۔

پاکستان میں اسی سے نوے فیصد بچوں کا پہلا معلم امام مسجد ہوتا ہے۔ اور اسی سے نوے فیصد لوگ امام مسجد کے پیشے کا انتخاب اپنی معاشی، معاشرتی اور سماجی مجبوریوں کی وجہ سے کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر امام صاحبان واجبی سی تعلیم کے حامل ہوتے ہیں اور اسلام کی اصل تعلیمات سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے۔ بچپن میں مذہب کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے جو عقائد راسخ کیے جاتے ہیں وہ انہیں امام مسجدوں کی دین ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے جمعہ کی تقاریر سب سے موثر کردار ادا کرتی ہیں۔

ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے جمعہ کے روز وقت سے پہلے مسجد میں پہنچیں، امام کی تقریر سنیں اور پھر نماز ادا کریں۔ جمعہ کے روز ہونے والی زیادہ تر تقاریر نہایت جوشیلی اور شدت پسند جذبات کو انگیخت دینے والی ہوتی ہیں۔ غور کیجیے گا کہ ان تقاریر میں سے شاذ و نادر ہی کوئی ایسی تقریر ہو گی جس میں محبت، امن، رواداری اور بقائے باہمی جیسی سنہری اسلامی روایات کی بات کی جائے گی۔ بلکہ ہر تقریر میں ”ناموس“ کے نام پر جان لینے یا جان دینے کی بات لازماً کی جائے گی اور اس پر جذباتی قسم کے نعرے بھی لگوائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ دیگر مذہبی جلسوں، جلوسوں اور تقاریب میں کی جانے والی تقاریر کا احوال بھی اس سے چنداں مختلف نہیں ہوتا۔ لہذا ہمارے لاشعور میں ”جان دینے اور جان لینے“ کا عمل مذہب کی اعلیٰ ترین خدمت کے مترادف ٹھہر جاتا ہے ۔

انسان کو ارتکاب جرم سے دو چیزیں روکتی ہیں :
1۔ جرم کے جرم ہونے کا شعور
2۔ ارتکاب جرم کی صورت میں ملنے والی سزا کا تصور

مذہب کے نام پر جان دینے اور جان لینے کو جائز اور مذہب کی عین خدمت قرار دے کر معاشرے سے جرم کے جرم ہونے کا شعور تو ابتدا میں ہی چھین لیا جاتا ہے۔ اور مذہب کے نام پر جرم کے بدلے میں سزا کی بجائے ”جنت کے ٹکٹ، حوض کوثر کے جام اور بہتر حوروں“ جیسے انعامات ملنے کے اعلان نے اسے خوش کن جزا میں بدل دیا ہے۔ اس طرح جرم کرنے والوں کو ارتکاب جرم کا احساس ہی نہیں ہوتا۔

رہی سہی کسر حالیہ دنوں میں کچھ شدت پسند مذہبی جماعتوں کی ریلیوں اور دھرنوں نے نکال دی ہے۔ جب قاتل ریاست کے نمائندے باوردی اہلکاروں کو قتل کر کے بھی نہ تو ”قاتل“ ٹھہرائے جائیں اور نہ ہی ان کو قرار واقعی سزا ملے تو پھر کوئی ”جان لینے“ سے کیوں کر ڈرے گا؟

اگر اس جمعہ کے روز آپ اپنے امام مسجد کو محبت، امن، رواداری اور بقائے باہمی جیسی سنہری اسلامی روایات کی تبلیغ کرنے پر قائل نہیں کرتے اور ”جان دو، جان لو“ کے فلسفے پر نعرہ تکبیر بلند کرنے والوں میں شامل ہوتے ہیں تو پھر آپ کے ہاتھ بھی ”پریانتھا کمارا“ کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب آپ کو بھی ”پریانتھا کمارا“ جیسے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments