کیا “گوادر کو حق دو” تحریک ملک دشمن ہے؟


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے زوال پذیر سماجی و معاشی اشاریوں اور تباہ ہوتے انفراسٹرکچر کو بچانے میں گوادر کا انتہائی اہم رول ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں گوادر میں پاکستان کو سہارا دینے کی صلاحیت ہے وہاں شہر کے بسنے والے مقامی لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے؟ مقامی لوگوں کو زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، ڈرایا و دھمکایا جا رہا ہے، ناروا سلوک اختیار کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے لوگ غائب بھی ہو رہے ہیں۔

یہ جابرانہ رویہ صرف گوادر شہر کے مکینوں کے ساتھ نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے وہ زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ میرے ملک کے اور بھی حصوں میں یہ جابرانہ رویہ روا رکھا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کے رہنے والے نہ صرف زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم ہو گئے، بلکہ آزادی جیسے بنیادی حق سے بھی محروم ہو گئے۔ نتیجتاً آج ملک کے بیشتر ہم وطن اپنے آپ کو ایک آزاد شہری سمجھنے کے بجائے غلام سمجھ رہے ہیں۔ اور یہ بات حقیقت ہے کہ جب بھی کسی ریاست نے اپنے شہریوں سے آزادی جیسے حق کو چھیننے اور بندی یا غلام بنانے کی کوشش کی ہے تو شہریوں نے یہ تو ریاست کے خلاف آواز بلند کی ہے یہ ریاست سے علیحدگی کی جنگ پر مصر ہو گئے۔ اور یہ اس بنیادی تصور کو ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے جس نے ان کو جوڑ رکھا ہے۔

آج گوادر میں گوادر کو حق دو تحریک چل رہی ہے۔ اور یہ تحریک کوئی ملک دشمن تحریک ہرگز نہیں بلکہ یہ تحریک تو گوادر کے حقوق کے تحفظ کی تحریک ہے۔ جس میں وہ اسی ظلم و جبر کی فریاد کر رہے ہیں کہ کیوں باڑ لگا کر مقامی لوگوں کو ان کے ساحل سے جدا کیا جا رہا ہے، جہاں ان کی پشتوں نے محنت کرتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ وہ ساحل جو ان کی رزق ذریعہ ہے۔ لوگوں کے منہ سے کیوں نوالہ چھینا جا رہا ہے۔ لوگوں کو بندی بنایا جا رہا ہیں گوادر کے قریب ایک وسیع علاقے پر باڑ لگایا جا رہا تھا۔

آپ کو یہ سن کر تھوڑا عجیب لگے گا کہ باڑ اور وہ بھی اندورن شہر میں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ گوادر شہر پر سیف سٹی منصوبہ کے تحت باڑ لگانے کا کام شروع کیا گیا تھا جس کے حوالے سے حکومتی اراکین کا کہنا تھا کہ باڑ لگانے کا مقصد مقامی لوگوں اور غیر ملکیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے نہ کہ مقامی لوگوں کی نقل و حرکت کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنا ہے لیکن مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ باڑ لگانے سے نہ صرف گوادر شہر کی آبادی تقسیم ہو جائے گی بلکہ ڈھائی لاکھ مقامی رہائشیوں کی نقل و حرکت بھی پیچیدہ ہو جائے گی۔ اس طرح باڑ لگانے سے گوادر کے قریب دیہات کے علاقے گوادر سے کٹ جائیں گے جس سے دیہات کے ماہی گیری جن کی روزی روٹی گوادر کے سمندر سے ہے کہ سماجی صورت حال پر گہرا اثر پڑے گا بلکہ ان کو آمدورفت میں دشواری کے ساتھ ان کے ذریعے معاش پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔

دوسرا بڑا مطالبہ جس کا نعرہ گوادر کو حق دو کے تحریک میں چھوٹے بڑوں، مرد اور عورتوں سے سننے کو مل رہا ہے وہ یہ کہ گوادر کے غریب عوام کو روزانہ کی بنیاد پر سیکورٹی کے نام پر چیک پوسٹوں پر ذلیل کرنا بند کیا جائے دراصل گوادر شہر میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ہر چند کلومیٹر پر چیک پوسٹس قائم ہیں جن پر مقامی لوگوں کا روز گزرنا ہوتا ہے جس کے حوالے سے مقامی لوگوں کے گلے شکوے ہیں کہ کیونکہ ان چیک پوسٹوں سے ان کا روز گزرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کو روزانہ بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے چیک پوسٹوں پر روک کر ان سے طرح طرح کے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ اپنا شناختی کارڈ دکھاؤ؟ وغیرہ وغیرہ نتیجہ روز مقامی لوگوں کو اپنی شناخت ثابت کرنی پڑتی ہے جس سے نہ صرف گوادر کے عوام کی خودمختاری کو ٹھیس پہنچتا ہے بلکہ ان کے شناخت پر سوالیہ نشان اٹھتا ہیں۔ ان کو اپنے ہی ملک میں، اپنی ہی زمین پر جگہ جگہ شناخت کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔

تیسرا بڑا مطالبہ غیر قانونی ٹرالنگ پر پابندی کا ہے پاکستانی اشرافیہ کا یہ ہمیشہ وتیرہ رہا ہے کہ انہوں نے ہم وطنوں سے زیادہ اپنے ذاتی اور غیر ملکیوں کے مفادات کو ترجیح دی ہے کیونکہ میرے ملک کے آمروں، نام کے جمہوریت پسندوں، ججوں اور جرنیلوں، بیوروکریٹ اور میڈیا نے اپنے اور غیروں کے مفادات کو بنیادی سمجھا ہے۔ جن کی کئی مثالیں تاریخ میں بھی ملتی اور یہی مثال ہمیں گوادر میں بھی ٹرالنگ کی صورت میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں پر سندھ ٹرالرز سمیت غیر ملکی جن میں چینی ٹرالرز بھی ٹرالنگ کرتے ہوئے نظر آئے ہیں جن کو صوبائی فشری کے محکمے کی سرپرستی حاصل ہے جس سے نہ صرف مقامی ماہی گیروں کی ذریعہ معاش تباہ ہو رہا ہے بلکہ یہ مچھلی کی نسل کشی کا بھی سبب بن رہے ہیں۔

چوتھا مطالبہ کہ گوادر کے مکینوں کو زندگی کے بنیادی حقوق فراہم کیے جائے جن میں بجلی، پانی اور گیس جیسے بنیادی حقوق ہیں۔ گوادر کے باسیوں کو بجلی، پانی اور گیس جیسے زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا۔ گوادر شہر میں بجلی کی فراہمی کا نظام عرصہ دراز سے بدانتظامی کا شکار ہے۔ اور پورے شہر کو ایران کے مرہون منت چھوڑ دیا گیا ہے۔ 2003 میں ایران اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ایران کو بلوچستان کی ساحلی پٹی کو 35 میگا واٹ بجلی فراہم کرنا تھی۔

جس میں 2011 میں توسیع کی گئی 34 میگاواٹ سے 70 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا اضافہ کیا گیا۔ اسی طرح جب گوادر میں ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہوا بجلی کی فراہمی میں مزید توسیع کی گئی جس کے تحت آج ایران پاکستان کو 104 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے لیکن ایران میں بجلی کی کمی کی وجہ سے گوادر شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور کئی کئی دنوں تک بجلی نہیں ہوتی جس سے مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پانچواں بڑا مطالبہ صاف پانی کی فراہمی کا ہے کیونکہ صوبہ بلوچستان سمیت گوادر میں پانی کی شدید قلت ہے پانی کا مسئلہ طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ جس کو نہ کبھی صوبائی حکومت نے اور نہ کبھی مرکزی حکومت نے سنجیدہ لیا۔ جس کی وجہ سے گوادر کے باشندے پبلک ہیلتھ انجینئر ڈیپارٹمنٹ کے سپلائی کیے گئے مضر صحت اور گندا پانی پینے پر مجبور ہے۔

الغرض آج گوادر کے باسی ریاست سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ گوادر کے سرزمین سے معاشی ترقی اور وسائل کو تو اپنایا جا رہا لیکن گوادر کے باسیوں کو کب اپنایا جائے گا؟

کب ان کی مفلسی اور غربت کو دور کیا جائے گا؟ کب تک ان سے ان ہی کی زمین پر ان سے اپنی شناخت پوچھی جائی گی؟ کب تک گوادر کے ترقی کے اثرات گوادر کے رہنے والوں میں دیکھنے کو ملے گے؟ کب تک ان کو اپنے ہی شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے اجازت نامے دکھانے پڑیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments