شہزادہ ولیم: ’میں لوگوں کے دکھ اپنے ساتھ گھر لے جا رہا تھا‘

کیتھرین سنوڈاؤن - بی بی سی نیوز


پرنس ولیم
پرنس ولیم 2015 میں بطور ایئر ایمبولنس پائلٹ کام کرتے ہوئے
'جب آپ بحیثیت انسان کسی کو موت کے دروازے پر دیکھتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں کہ آپ اس سے منتاثر نہ ہوں۔'

زندگی اور موت کی کشمکش سے نبرد آزما مریضوں کے ساتھ بطور ایئر ایمبولنس پائلٹ کام کرنے والے ڈیوک آف کیمبرج، برطانیہ کے شہزادہ ولیم کے مطابق ان کی زندگی کے وہ لمحات آج بھی ان کے ذہن پر نقش ہیں۔

واضح رہے کہ پرنس ولیم نے 2015 سے 2017 تک ایسٹ اینگلین ایئر ایمبولنس کے ساتھ بطور پائلٹ کام کیا تھا۔

انہوں نے ایپل ٹائم ٹو والک پوڈ کاسٹ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بطور ایئر ایمبولنس پائلٹ کام اور اس کے نفسیاتی اثرات پر بات چیت کی۔

واضح رہے کہ پرنس ولیم ماضی میں بھی اپنے ان تجربات سے متعلق گفتگو کر چکے ہیں لیکن ملکہ برطانیہ کی نورفولک میں سینڈرنگھم سٹیٹ پر بات چیت کی اس آڈیو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کے یہ تجربات آج بھی ان کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔

‘بطور ایئر ایمبولنس پائلٹ اکثر اداس رہتا تھا’

پرنس ولیم نے بتایا کہ وہ بطور ایئر ایمرجنسی پائلٹ اکثر اداس رہتے تھے کیوں کہ وہ لوگوں کے دکھ اپنے ساتھ گھر لے جا رہے تھے حالانکہ ‘میں اپنی نجی اور گھریلو زندگی سے بہت خوش تھا’۔

پرنس ولیم کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں جب بحیثیت ایک انسان آپ کسی کو بھی ایک ایسی مشکل صورت حال سے گزرتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں وہ زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہا ہو تو ایسا ممکن نہیں کہ آپ خود متاثر نہ ہوں۔’

ایسے میں خود پر نفیساتی دباؤ کو کم کرنے کے لیے پرنس ولیم کے مطابق انہیں اپنے کام کے بارے میں بات چیت کرنے سے بہت مدد ملی۔ ‘ایسے واقعات میں اپنی ٹیم کو بتاتا تھا اور ان کے ساتھ بات چیت کرتا تھا۔’

ولیم کا کہنا تھا کہ ایک بار انہیں ایک ایسے فرد اور اس کے خاندان سے بات چیت کرنے سے بہت مدد ملی جو کافی حد تک صحتیاب ہو چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لمحات جب بھی انہیں یاد آتے ہیں تو وہ کافی جذباتی ہو جاتے ہیں اور آج بھی وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

لیڈی ڈیانا

PA Media

یہ بھی پڑھیے

’سپنسر‘: ہردلعزیز شہزادی ڈیانا کی پراسرار کہانی کی کشش آج بھی برقرار

’ماں کی موت کے درد جیسا کوئی درد نہیں‘

شہزادی ڈیانا کے مجسمے کی رونمائی: ان کے دونوں بیٹوں کے تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا؟

جب لیڈی ڈیانا اونچی آواز میں گانا گاتی تھیں

پرنس ولیم نے جہاں اس انٹرویو کے دوران بطور ایئر ایمبولنس پائلٹ نفسیاتی اور ذہنی دباؤ پر بات کی، وہیں اپنی زندگی کے کچھ خوش گوار لمحات پر بھی گفتگو کی۔ ان میں سے ایک ان کے لیے وہ یاد تھی جب ان کی والدہ لیڈی ڈیانا اونچی آواز میں اس وقت کا ایک ہٹ گانا گاتی تھیں۔

پرنز ولیم کے مطابق ٹرنر کا یہ گانا دی بیسٹ لیڈی ڈیانا ہمیشہ اس وقت گاتی تھیں جب وہ ولیم اور ہیری کو سکول چھوڑنے جا رہی ہوتی تھیں اور اس کا مقصد بچوں کی سکول جانے کی بے چینی کو کم کرنا ہوتا تھا۔

‘سکول کے گیٹ تک ہم اونچی آواز میں گانا سن اور گا رہے ہوتے تھے کہ ایک دم ہمیں سکول کے سامنے اتار دیا جاتا اور پھر ہمیں احساس ہوتا کہ اب ہم واقعی سکول جا رہے ہیں۔’

ولیم کہتے ہیں کہ آج بھی جب وہ اس گانے کو سنتے ہیں تو انہیں وہی وقت یاد آجاتا ہے جب ان کی والدہ انہیں سکول چھوڑنے جاتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments