کیا پاکستان ایک ناکام ریاست بن رہا ہے؟


سیال کوٹ کا اندوہ ناک واقعہ ریاستِ پاکستان کے منھ پر ایک ایسا طمانچہ ہے جس کی گونج تا دیر پوری دنیا میں ہمارا بگڑا ہوا چہرہ دنیا کو عیاں کرتی رہے گی۔ ریاست کا اُجلا چہرہ کسی ایک دن میں نہیں بگاڑا گیا ہے بلکہ اس کو بگاڑنے کی شروعات جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں ہوئی تھیں اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے آمرانہ دورِ حکومت میں ریاست کے چہرے پرمزید کالک مَل دی تھی۔ طاقت ور اداروں کی اس مفاداتی روش کو دیکھتے ہوئے جمہوری حکومتوں نے بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ریاست کے چہرے کو بدنما کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
مذہبی شدت پسندی اور مذہبی گروہوں کو پراکسی جنگوں کے لئے استعمال کرنے کے نتیجے میں ریاست کی اصل رِٹ تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس پر مستزاد عام لوگوں کے ذہنوں میں جس انجنئیرڈ طریقے سے مذہب کا نشہ ڈالا گیا ہے، اس نے پورے معاشرے کو سرطان زدہ کردیا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد خود کو خدائی فوجدار سمجھنے لگا ہے اور جہاں اسے اس کے ذہن کے مطابق توہین مذہب یا توہین رسالت نظر آتی ہے، وہ ڈنڈا اٹھاتا ہے اور کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو معاشرے میں مذہب کی اصل تعلیمات پر کوئی عمل نہیں ہوتا۔عموماً مذہبی شدت پسندوں کو مذہب کی اصل روح کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ ان کی ذاتی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوتیں لیکن وہ مذہب کے نام پر باؤلے ہوکر دوسروں کی جان لینے پر فوری آمادہ ہوجاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق متعلقہ فیکٹری میں صبح سے ہی یہ چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ سری لنکن منیجر نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے اور ورکرز میں اس کے خلاف جذبات برانگیختہ ہو رہے ہیں۔ فیکٹری کی انتظامیہ نے اگر اس کے باوجود مقامی پولیس کو فوری اطلاع نہیں دی ہے تو اس کی کوتاہی قابلِ گرفت ہے لیکن اگر وہ اس معاملے میں پولیس کو اطلاع بھی دیتی تو بروقت پہنچ کر پولیس بھی کچھ کرنے کے قابل نہ رہتی کیوں کہ جب معاملہ مذہب کی توہین کا ہو اور اس میں ایک بپھرا ہوا ہجوم ملوث ہو تو پولیس محض تماشا دیکھنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں اب معاملہ ریاست کی رِٹ پر سوالیہ نشان ثبت کرتا ہے۔ جس کو اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومتوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے یرغمال بنا رکھا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک عام شہری بری طرح غیر محفوظ ہوچکا ہے۔
بیڈ گورننس، انتظامی، معاشی، بیرونی قرضوں، مہنگائی اور امن و امن کے لحاظ سے مکمل طور پر ناکام ہوتی ریاست کی حیثیت سے پاکستان کا تقابل اگرچہ کسی ترقی یافتہ ملک سے کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن میں یہاں پھر بھی انگلینڈ کے ایک واقعے کی مثال دینا چاہوں گا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ریاست اپنے کسی ایک شہری کی جان کے خطرے کی صورت میں اس کی حفاظت کے لئے کس قدر حساس ہوتی ہے۔
میرے ایک دوست مانچسٹر میں ایک کمپنی میں سیکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے فرائض ادا کرتا ہے۔ اس نے مجھے اپنا ایک ذاتی واقعہ سنایا ہے جس کی تفصیل کے مطابق اس کی ڈیوٹی امسال جنوری میں کونسل کی ایک بلڈنگ میں لگائی گئی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے اسکول بند تھے جس کی وجہ سے بچے فارغ تھے تو بعض بچوں نے سات آٹھ افراد کے گروہ بناکر لوگوں کو تنگ کرنا شروع کیا تھا۔ مذکورہ بلڈنگ میں کوئی پچاس کے قریب فلیٹ تھے جن میں لوگ رہائش پذیر تھے۔ بچے اس بلڈنگ میں گھس کر دروازوں پر زور زور سے دستک دیتے اور شیشے توڑتے۔ پولیس جب آتی تو وہ بھاگ جاتے۔ کونسل کی انتظامیہ نے تنگ آکر سیکیورٹی گارڈ کا بندوبست کیا تاکہ وہ بچوں کو بلڈنگ کے اندر نہ گھسنے دے۔ دوست کہتا ہے کہ بچے جب آکر بلڈنگ میں گھسنے کی کوشش کرتے تو میں انھیں اندر نہیں جانے دیتا تھا جس کی وجہ سے وہ مین دروازے پر پتھر مارتے اور وہ جب پولیس کو کال کرتا تو پولیس دس پندرہ منٹوں میں پہنچ جاتی لیکن بچے بھاگ کر غائب ہوجاتے۔ دوست کا کہنا ہے کہ وہ بعض اوقات تین تین بار پولیس کو بلانا پڑتا لیکن معاملہ پھر بھی درست ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ بچے چوں کہ ٹین ایجر تھے، اس لئے پولیس ان کے خلاف سخت ایکشن بھی نہیں لے سکتی تھی۔ یہ نو بچوں کا گروہ تھا جس میں دو لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں۔ ان میں ایک بارہ سالہ لڑکی جو بہت شرارتی تھی، وہ بلڈنگ کے سامنے ایک گھر میں رہتی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ پولیس کو میں نے بتایا کہ ایک بچی تو سامنے والے گھر میں رہتی ہے، آپ لوگ وہاں جاکر اس کے والدین کو کیوں نہیں سمجھاتے۔ پولیس جواب دیتی کہ ہمیں قانون اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم کسی سنگین جرم کے بغیر بچے یا بچی کے گھر تک جائیں۔ پولیس عموماً پوچھتی کہ بچے جب یہاں آتے ہیں کیا کرتے ہیں اور میرا دوست جواب دیتا کہ بچے دروازے پر پتھر وغیرہ پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ پولیس مطمئن تھی کہ سیکیورٹی گارڈ اور بلڈنگ میں رہائش پذیر لوگوں کو کوئی غیرمعمولی خطرہ لاحق نہیں ہے، اس لئے وہ بعض اوقات کال کرنے پر پندرہ بیس منٹ یا آدھ گھنٹے کے بعد پہنچ جاتی تھی۔ ایک دن گروپ میں موجود ایک لڑکا اپنے ساتھ چھری لے کر آیا اور اسے دروازے پر مارتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ کو دھمکانے لگا۔ سیکیورٹی گارڈ نے جب پولیس کو فون کرکے یہ بتایا کہ بچہ اپنے ساتھ چھری لے کر آیا ہے تو دو تین منٹ کے اندر اندر پولیس کی دو گاڑیاں موقعے پر پہنچ گئیں اور سیکیورٹی گارڈ سے واقعے کی پوری تفصیلات لے لیں۔ بچے کی شکل و شباہت وغیرہ کے بارے میں پوچھا۔ اس دن کے بعد پولیس نے وہاں پہ دو کمیونٹی پولیس اہل کاروں کی ڈیوٹی بھی لگائی جو ہر ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بلڈنگ کا چکر لگاتے اور صورتِ حال کا جائزہ لیتے۔ کمیونٹی پولیس کی وجہ سے ایک ہفتے تک ٹین ایجر گروپ غائب رہا اور جب کمیونٹی پولیس نے آنا بند کردیا تو گروپ دوبارہ نمودار ہوگیا۔ ایک دن گروپ کے کئی بچے اپنے ساتھ لوہے کی سلاخیں لے کر آئے اور انھوں نے دروازے کو توڑنے کی کوشش کی لیکن دروازے میں مضبوط پلاسٹک کے شیشے لگے ہوئے تھے جن کو توڑنا مشکل تھا۔ میرے دوست نے بتایا کہ اس نے پولیس کو کال کرکے انھیں بتایا کہ بچوں کے ہاتھوں میں لوہے کی سلاخیں ہیں اور وہ دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے دوست نے بلڈنگ کے اندر سے ان بچوں کی ساری کارروائی کی ویڈیو بھی بنائی۔ اس دوران تین منٹوں کے اندر اندر پولیس کی تین گاڑیاں ہوٹر بجاتی ہوئی پہنچ گئیں۔ بچے بھاگ گئے۔ سیکیورٹی گارڈ نے پولیس کو سارا واقعہ تفصیل سے بیان کیا اور کہا کہ اس نے ان بچوں کی ویڈیو بھی بنائی ہے۔ ایک پولیس آفیسر نے جب ویڈیو دیکھی تو چار پولیس اہل کار فوری طور پر سامنے والے گھر پہنچ گئے جہاں پہ وہ شرارتی بچی رہائش پزیر تھی کیوں کہ اس کارروائی میں وہ بھی موجود تھی۔ پولیس نے دروازے پر دستک دی لیکن گھر والے دروازہ کھولنے پر آمادہ نہیں تھے۔ پولیس کے پاس دروازہ توڑنے کے لئے ایک مخصوص قسم کا بھاری سٹک ہوتا ہے جس کے ایک دو وار سے دروازہ دھڑام سے کھل جاتا ہے۔ ابھی پولیس نے ایک دفعہ ہی دروازے کو سٹک مارا تھا کہ گھر والوں نے دروازہ خود کھول دیا۔ پولیس وہاں آدھ گھنٹہ تک تفتیش کرتی رہی اور بچی کے والدین کو بچی کی خطرناک کرتوت کے نتائج کے بارے میں بتاتی رہی۔ اس کے بعد متعلقہ سیکیورٹی گارڈ کو دو دفعہ درخواست پر پولیس سٹیشن بلایا گیا اور اس کی تفصیلی وٹنس سٹیٹمنٹ لے لی گئی اور پھر ایک لڑکے اور مذکورہ لڑکی کو گرفتار کرلیا گیا۔
یہاں اس واقعہ کو لکھنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دو دفعہ پولیس دو سے تین منٹ میں فوری طور پر کیوں پہنچ گئی تھی؟ ایک بار جب لڑکا چاقو لے کر آیا تھا اور دوسری دفعہ جب بچے اپنے ساتھ لوہے کی سلاخیں لے کر آئی تھے جب کہ اس سے پہلے پولیس محض تفصیلات اکھٹے کرنے آتی اور کوئی عملی کارروائی کئے بغیر چلی جاتی تھی۔ جب پولیس کو اندازہ ہوا کہ اب سیکیورٹی گارڈ یا بلڈنگ کے رہائشیوں کو زخمی ہونے کا خطرہ ہے تو پھر انھوں نے وہاں پہنچنے میں کوئی تاخیر نہیں کی اور اس وقت ان کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ مجھے اس واقعے سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کا کام شہریوں کی حفاظت اور جرائم پیشہ لوگوں کو قانون کی گرفت میں لانا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے نہ صرف انھیں خصوصی تربیت دی جاتی ہے بلکہ انھیں فوری کارروائی اور وقوعے کے مقام پر تیزی کے ساتھ پہنچنے کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس ایک تو کسی وقوعے کے موقعے پر جلد پہنچنے میں ناکام رہتی ہے اور اگر موقعے پر پہنچ بھی جائے تو ہجوم کے سامنے بے بس بھی ہوتی ہے۔ سیال کوٹ کے واقعہ میں پولیس اہل کار جلتی ہوئی لاش دیکھتے رہے لیکن وہ اسے جلنے سے بچانے سے قاصر تھے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان وسائل کے لحاظ سے ایک غریب بلکہ مفلوک الحال ملک ہے لیکن ہر معاملہ میں وسائل کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی بلکہ منیجنمنٹ اور بہتر کارکردگی کا ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی پولیس فورس اتنی بھی کم زور اور بزدل نہیں ہے لیکن ایک تو انھیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرا ان کی ایک اچھی خاصی تعداد اہم شخصیات کی سیکیورٹی پر تعینات ہوتی ہے۔ اس کے بعد ان کے اختیارات کا مسئلہ بھی ہے اور وہ خود بھی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی مثال تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ دھرنے کے سامنے واضح طور پر سامنے آئی ہے۔ حکومت نے فوج کے اشارے پر تحریک لبیک کے ساتھ مفاہمت کا راستا اختیار کیا لیکن جو پولیس اہل کار ان شدت پسندوں کے تشدد کا نشانہ بن کر اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے، اس کی پرواہ نہیں کی گئی۔ جب تک پولیس کو اپنی ذمہ داریاں آزادی کے ساتھ ادا کرنے نہیں دیا جائے گا اور سیال کوٹ جیسے سانحات کی روک تھام کے لئے انھیں خصوصی تربیت اور سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں اور اسے تیزی کے ساتھ کسی وقوعہ پر پہنچنے کی صلاحیت کا حامل نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک پولیس فورس کی کارکردگی بہتر نہیں ہوسکے گی۔ سیال کوٹ کے واقعہ میں پولیس نے یہ عذر بھی پیش کیا ہے کہ سڑک پر رش کی وجہ سے بھی ان کے پہنچنے میں تاخیر ہوگئی تھی تو دنیا کے بیشتر ممالک میں پولیس کی گاڑی جب ایمرجنسی میں ہوٹر بجاتی ہوئی جا رہی ہو تو سڑکوں پر رواں دواں گاڑیاں ادھر اُدھر ہوکر ان کے لئے راستا صاف کردیتی ہیں۔ یہی کچھ ایمبولینس کی گاڑیوں کے لئے بھی کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ عام لوگوں کو اس اَمر کا پابند بنانے کے لئے وسائل کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ قانون بنانے اور اس پر سختی سے عمل کروانے کی ضرورت ہے جس میں ہمارے متعلقہ محکموں کے افسرانِ بالا مکمل طور پر ناکام اور نااہل ہیں۔ یہ لوگ اپنے فرائض منصبی صحیح طور پر ادا نہیں کرتے جب کہ تن خواہیں اور مراعات باقاعدگی سے لیتے ہیں۔ جب کوئی سرکاری اہل کار یا افسر اپنے فرائض ادا کرنے میں غفلت اور کوتاہی کرتا ہے تو اسے عوام کے خون پسینے کی کمائی تن خواہوں اور مراعات کی صورت میں کیوں دی جائے؟
سیال کوٹ کا اندوہ ناک واقعہ نہ کوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔ اس سے قبل اسی شہر میں دو کم سن بھائیوں مغیث اور منیب کو 2010ء میں ان ہی الزامات کے تحت ایک ہجوم نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔ اگر اُس وقت سزا دینے کے علاوہ حکومت اس طرح کی لاقانونیت کے حوالے سے غور و فکر کرتی اور مستقبل میں اس کے انسداد کے لئے کوئی موثر طریقۂ کار وضع کرتی تو شاید 2017ء میں عبدالولی خان یونی ورسٹی کے طالب علم مشال خان کا افسوس ناک واقعہ بھی ظہور پزیر نہ ہوتا اور سیال کوٹ میں بھی ایک غیرملکی ہجوم کی سفاکی کا نشانہ نہ بنتا۔ یہ واقعات آئندہ بھی پیش آئیں گے اس لئے حکومت کو اب اس طرح کی متوقع صورتِ حال کے حوالے سے خصوصی قانون سازی اور لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے۔
مذہبی شدت پسندی پورے معاشرے میں گھر کر گئی ہے۔ ہمارے اسٹیبلشمنٹ اور حکومتیں مذہب کو اپنے گھناؤنے مقاصد کے لئے بڑے تواتر کے ساتھ استعمال کر رہی ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کو وجود میں لانے کی وجہ تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل کو سزا دینا بنی لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت چاہتی تو یہ تحریک کبھی بھی وجود میں نہیں آسکتی تھی لیکن چوں کہ اس طرح کی شدت پسند مذہبی تنظیمیں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہے اور ان کے ذریعے اپنے مخصوص مقاصد پورا کرتی رہی ہے، اس لئے وہ ایسی تنظیموں کے قیام کو اپنے لئے خوش آئندسمجھتی ہے۔ اسی تنظیم کو بعد ازاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا تھا اور اب اس کے حالیہ پُرتشدد دھرنے کو بھی کسی خاص مقصد کے تحت برداشت کیا گیا تھا اور اس کو کالعدم قرار دینے اور اس پر بھارت کی سرپرستی کا الزام عائد کرنے کے باوجود اسے چھوٹ دی گئی۔ اس کے گرفتار کارکنوں کو رہا کردیا گیا اور اس کے امیر سعد حسین رضوی کو ’’ملک کے وسیع تر مفاد‘‘ میں ایک معاہدے کے تحت نہ صرف رہا کردیا گیا بلکہ اسے حکومت کی طرف سے پھول بھی پیش کئے گئے۔
جب آپ کسی شدت پسند مذہبی تنظیم کو کالعدم اور ملک دشمن قرار دے اور اس کے وجود کو ملک و قوم کے لئے خطرناک سمجھے تو پھر کس قانون کے تحت آپ اس کے جرائم سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس کے لئے قانون کو موم کی ناک بنا دیتے ہیں۔ اس کے رہنماؤں اور کارکنوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت مقدمات درج تھے اور ملک کے امن و امان کے لئے انھیں خطرناک قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے انھیں ہر طرح کے الزامات سے بری الذمہ قرار دے کر انھیں پاک و صاف کردیا۔ جب ریاست اس طرح کے شدت پسند جتھوں کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ مستقبل میں ان کی سرگرمیاں پرامن عوام کے جان و مال کے لئے شدید خطرات اور ملک کے امن و امان کے لئے سنگین مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان جیسی شدت پسند تنظیموں کو پھلنے پھولنے کا موقع دے کر ریاست عام لوگوں میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے رہی ہے جس کے نتیجے میں اس طرح کے ہجوم وجود میں آتے ہیں جو کسی بے گناہ پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے خود سزا دینے کو فرض سمجھتے ہیں۔ چار عشروں پر مشتمل پاکستان کی خونی تاریخ سے نہ اسٹیبلشمنٹ نے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ ہی ہمارے سیاست دانوں میں کوئی شعور بیدار ہوا ہے جو ملک سے مذہبی شدت پسند تنظیموں کا سنجیدگی کے ساتھ قلع قمع کرے۔ اب بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی اپنی سیاسی بقا کے لئے تحریک لبیک پاکستان جیسی تنظیموں کو مستقبل میں اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے جس کے نتائج ہر طرف سے بحران میں گھرے اس ملک کی سالمیت کے لئے مزید سنگین خطرات کے باعث ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ حکومت تو تحریک طالبان پاکستان کےساتھ بھی مذاکرات کر رہی ہے جس کی کارروائیوں کی وجہ سے 80 ہزار اہل وطن اپنی قیمتی جانوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس تنظیم نے آرمی پبلک اسکول میں 150 معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کے قتل کا عام اعتراف بھی کیا ہے۔ اگر ان بے گناہوں کا خون معاف کردیا گیا تو ان کے خون کے دھبے ریاست کے چہرے کو ہمیشہ داغ دار بنائے رکھیں گے۔
ریاست پاکستان کی رِٹ مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔ یہ بڑی تیزی کے ساتھ ایک ناکام ریاست کی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ افسوس ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری فوج دنیا کی منظم ترین اور مستحکم فوجوں میں سے ایک ہے لیکن حالیہ دنوں میں ریاست جس طرح تحریک لبیک پاکستان کے آگے سرنگوں ہوکر اس سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئی، اس نے ملک کے باشعور اور فہمیدہ عوام کو سخت مایوس کردیا ہے۔ حکومت اور ریاست کو اپنی رِٹ قائم کرنے کے لئے ملک دشمن قوتوں اور شدت پسند مذہبی جتھوں کے خلاف منصفانہ نہیں بلکہ ظالمانہ اقدامات اٹھانا چاہئیں کیوں کہ جب تک ریاست اپنی قوتِ قاہرہ کا مظاہرہ نہیں کرے گی، وہ ملک میں مستقل بنیادوں پر امن و امان قائم نہیں رکھ سکتی۔ وہ اگر طاقت ور جتھوں کے سامنے جھکے گی تو یہ ان جتھوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا۔
سانحہ سیال کوٹ کے واقعے میں سو سے زیادہ لوگوں گرفتار کرلیا گیا ہے جن میں تیرہ ملزموں کو مرکزی قرار دیا جا رہا ہے لیکن جب کوئی ہجوم اس طرح کے واقعات میں ملوث ہوتا ہے تو اس میں کوئی مرکزی ملزم یا مجرم نہیں ہوتا۔ پورا ہجوم مجرم ہوتا ہے کیوں کہ اس کے سامنے ایک بے گناہ شخص کو قتل کرکے جلایا جا رہا ہے لیکن وہاں موجود لوگ بے حسی کی چادر اوڑھے اس ظلم و بربریت کا تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں۔ میں اپنے کالم کا اختتام ممتاز عالم دین جاوید احمد غامدی کے ان الفاظ پر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’جرم اگر جتھا بناکر ہوا ہے تو اس کی سزا بھی انفرادی حیثیت سے نہیں بلکہ اس جتھے کو جتھے ہی کی حیثیت سے دی جائے گی۔ چنانچہ مجرموں کا کوئی گروہ اگر فساد فی الارض کے طریقے پر قتل، اغوا، زنا، تخریب، تربیب اور اس طرح کے دوسرے جرائم کا مرتکب ہوا ہے تو اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ متعین طور پر جرم کا ارتکاب کن ہاتھوں سے ہوا اور کن سے نہیں ہوا ہے بلکہ جتھے کا ہر فرد اس میں شریک سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ معاملہ بھی لازماً اسی حیثیت سے ہوگا۔‘‘
……….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments