ماحولیاتی تنقید، پیسٹورل ایلجی اور ہم


آج کل میں پشتو ادب میں ماحولیاتی تنقید میں پیسٹورل ایلیجی پر کتاب لکھ رہا ہوں اور اب تک چھ متعلقہ مضامین سوشل میڈیا پر شائع کرا چکا ہوں اور سنجیدہ دوستوں نے اس کاوش کو سراہا بھی ہے۔ عالمی ادب میں تو اس پر خاصہ کام ہو چکا ہے لیکن ہمارے اردو ادب میں صرف اورنگ زیب نیازی صاحب نے اس موضوع پر خارجی لکھاریوں کے مضامین اکٹھا کرنے کے بعد ترجمہ کر کے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ پشتو ادب میں حال ہی میں عباد روھی نے پشاور یونیورسٹی سے ڈاکٹر صاحب شاہ صابر کی شاعری اور ماحولیاتی تنقید کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ہے۔ اصل میں جو میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پیسٹورل ایلیجی بنیادی طور پر مرثیہ کی شکل ہے جو قدیم ادوار میں دیہاتی زندگی اور گڈریوں کی موت پر کہی یا لکھی جاتی تھی۔ اور وہ لوگ اپنی دیوی سے شاکی ہوتے تھے کہ کیوں دیوی نے ان کو نہیں بچایا اور نوحہ کناں ہوتے تھے لیکن اخر میں سب پر چپ طاری ہوجاتی تھی اور اس نتیجے پر پہنچ جاتے تھے کہ انسان بھگوان کا روپ ہے لہذا کچھ وقت کے لئے بھگوان سے بچھڑ کر اس دنیا میں آیا تھا اب پھر واپس بھگوان کے پاس جاکر امر ہو گیا ہے۔

بعد میں سپینسر اور ملٹن نے یہ ایلیجی لکھیں اور مختلف شکلوں میں آتے آتے اس دور تک پہنچ چکی ہیں۔ تو میرے ذہن میں کچھ تصویریں اور کچھ ویڈیوز گردش کرنے لگیں کہ مرنے والوں پر تو لوگ گریہ کرتے ہی ہیں لیکن جب زندہ لوگ خود پر گریہ کناں ہوں یا پھر بیٹا بہن یا ماں اپنے چہیتوں کی لاشوں پر سراپا ماتم ہوں اور اس عکاس منظر کو عمرانی اور اخلاقی تقاضے بھی اپنی نظریں جھکا کر سہتے ہوں تو ایسے ہیجان یا زندگی کے پرسوز عمل کو کون سے پیسٹورل ایلیجی میں شمار کیا جائے گا۔

جیسے چار بچیاں اور چار ایلیجیز یا نوحے۔ ایک بچی شام میں جب حالت نزاع میں پکار پکار کر بول رہی تھی کہ اس سب کچھ کی شکایت میں اللہ میاں کے پاس جاکر کروں گی۔ ایک اور بچی وہ بھی شام کی تھی جب وہ جنگی صورت حال میں بھاگ رہی تھی تو اس دوران ایک کیمرہ مین ان کی معصوم چہرے کی ویڈیو بنا رہا تھا تو وہ ان کو چیخ چیخ کر منع کر رہی تھی کہ خدا کے واسطے میری ویڈیو مت بناؤ میں اس وقت بے حجاب ہوں، برہنہ ہوں۔ ایک شیفرڈ گڈریا لڑکی جب جنگ زدہ علاقے میں بھوک سے ہلکان ہو رہی تھی تو چیخ چیخ کر پکار رہی تھی کہ یا اللہ مجھ میں سکت نہیں بھوک سے مری جا رہی ہوں، کھانے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں مجھے اپنی جنت لے جا تاکہ میں وہاں بہت سارا کھانا کھا سکوں۔

اس طرح ایک افغان بچی بم دھماکے میں زخمی ہوئی تھی تو ڈاکٹر چاہ رہا تھا کہ اس کا آپریشن کیا جائے، جب ڈاکٹر ان کے آپریشن کے لئے ان کی پہنی ہوئی قمیض کی آستین کاٹنے لگا تو چیخ چیخ کر پکارنے لگی کہ ڈاکٹر میری یہ آستین مت کاٹنا میرا دوسرا پہنے کا جوڑا نہیں ہے۔ اس طرح ایک ویڈیو میں ایک فوجی کی بچی اپنے باپ کی وردی چوم رہی ہے۔ اس طرح ایک ویڈیو میں ایک بچہ اپنے شہید فوجی باپ کے قبر پر پہنچ کر بابا کہ کر پکار رہا ہے۔

بالکل اسی طرح ایک تصویر میں ایک بچہ دونوں شہید ہوئے ماں باپ کے قبروں کے درمیان لیٹا ہوا سو رہا ہے۔ بالکل اسی طرح ایس پی طاہر داوڑ کی بیٹی اپنے باپ کی تصویر اٹھائے بالکل چپ خاموش کھڑی چلا رہی ہے پر ہم ان کی فریاد شاید سن نہیں پا رہے ہیں۔ بالکل اس طرح گزشتہ دنوں پنجاب میں اشتعال انگیزی کے دوران ایک شہید ہونے والے انسپکٹر کے تابوت کے ساتھ کھڑے ان کے چھوٹے بیٹے کی تصویر پکار پکار کر ایلیجی مقتدر قوتوں کو سنا ریا تھا لیکن کوئی سننے والا نہیں۔

اور اخر میں بالکل تازہ تازہ سری لنکن شہری کی جلی بھنی لاش اور ان کی بیوی اور بچہ پکار پکار کر پیسٹورل ایلیجی سنا رہے ہیں لیکن ہم کوئی عملی اقدام اٹھانے والے نہیں، کچھ دنوں کے لئے کسی سانحے پر ردعمل ظاہر کر دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں لیکن جب اس طرح کا کوئی اور حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہم جاگ جاتے ہیں اخر کب تک ہمارا یہ جاگنے اور پھر سونے کا عمل جاری رہے گا؟ تب تک جب اللہ نہ کرے ہم سب اپنے اپنے پیسٹورل ایلیجیز ایک دوسرے کو سنا رہے ہوں گے اور کوئی سننے والا نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments