علم کے فروغ میں لائبریریوں کا اہم کردار


علم حاصل کرنا ہرمرد اور عورت کے لئے فرض قراردیا گیا ہے۔اسی طرح علم سکھانا اور اس کو فروغ دینا بھی بہترین اعمال میں سے ایک عمل ہے۔لائبریریاں علم کے فروغ میں بہت اہم کرداراداکرتی ہیں۔لائبریریوں کے قیام اور ان کے ذریعے علم کے فروغ کے بغیر کوئی بھی قوم عروج حاصل نہیں کرسکتی۔بقول مولاناالطاف حسین حالی مسلمانوں کااقبال جب عروج پر تھا تو اس وقت کتب خانوں کو بہت اہمیت حاصل تھی۔مولانا فرماتے ہیں
حریم خلافت میں اونٹوں پہ لد کر
چلے آتے تھے مصر و یوناں کے دفتر
مسلمانوں نے ہندوستان پر ہزار سال حکومت کی۔انہوں نے بہت سی لائبریریاں اور کتب خانے قائم کئے۔شاہان دہلی واودھ کے گراں بہا کتب خانے،نیز ٹیپوسلطان اور دیگر امراءکے کتب خانے اس وقت کے نوادرات کے ذخیروں میں شمارہوتے تھے۔مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ہی انگریز حکمران انہیں ایک ایک کرکے اٹھا کرلے گئے۔انڈیا آفس لائبریری میں ایک بہت بڑا کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے جو انگریز ہندوستان ہی سے لیکر گئے تھے۔ لندن کا برٹش میوزیم بقول سرسید احمد خاں کتابوں کا ایک بڑا جنگل ہے۔یہ میوزیم انگریز کی علم دوستی اور علمی شغف کا ایک بین ثبوت ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں کتب اور لائبریریز کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ وہ ممالک اور قومیں ان کی اہمیت وافادیت سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔
یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ جن اقوام نے کتب سے اپنا رشتہ برقرار رکھاانہیں قوموں نے ترقی کی منازل کوطے کیا۔علم ودانائی کی دنیا میں لائبریری کو کتاب کا گھر سمجھا جاتا ہے۔باشعور ،پڑھی لکھی اور سمجھ دار اقوام کتب کے گھروں (لائبریریز)کو صاف ستھرا رکھتے ہوئے ان کی تزئین وآرائش کو یقینی بنانے کے لئے اپنی ہرممکن کوشش بروئے کار لاتی ہیں۔ہمارے اردگرد اور مغربی دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج وہ اقوام کہاں کھڑی ہیں اور ہم کہاں بھٹک رہے ہیں۔ہمارے زوال کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے انسان کو انسان بنانے والی باتوں اور چیزوں کو کبھی اہمیت دینا ہی نہیں چاہی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ICTsکی آمد کے بعد دنیا کے ٹرینڈز اور لائف اسٹائل میں بڑی حد تک تبدیلیاں رونما ہوئیں مگر کتاب اور اسکے گھر (لائبریری )کی اہمیت سے کسی صورت بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔کاش کہ ہم نے صرف لائبریریز کی اہمیت سے ہی نظریںچرائی ہوتیںمگر افسوس کہ ہم نے تو لائبریریز کو کوڑا کرکٹ پھینکنے اور چولہے میں جلائی جانے والی لکڑیوں کو محفوظ کرنے کی بہترین جگہ مان لیا۔ایسی ہی ایک مثال گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے آبائی شہر پیرمحل کی ہے جہاں پر مثالی گاﺅں چکنمبر670/11گ ب رکن آباد میں قائم لائبریری ہماری علم اور کتاب دوستی کی واضح مثال پیش کرتی نظر آتی ہے۔
پیپلزپارٹی کے دورحکومت کے دوران 1993ء میں سابق صوبائی وزیر صنعت سید مخدوم علی رضا شاہ مرحوم کی کاوشوں سے پیرمحل کے گاﺅں 670/11گ ب رکن آباد میں سرکاری احاطہ نمبر32کی اراضی 1کنال 4 مرلے اور 4 سرسائی پر خطیررقم سے پبلک لائیبریری کے لئے ایک خوبصورت بلڈنگ تعمیر کروائی گئی۔ مذکورہ سیاسی پارٹی کااقتدار ختم ہونے پر بعدمیں حلقہ سے منتخب ہونیوالے اراکین اسمبلی اور مقامی انتظامیہ کی مبینہ عدم توجہی اور غفلت کے باعث لائیبریری کی بلڈنگ بھوت بنگلہ میں تبدیل ہوکررہ گئی۔ انتظامیہ کے بیدار نہ ہونے کی وجہ سے بلڈنگ کا فرنیچر،داخلی آہنی گیٹ،الیکٹریکل اشیاءاور چاردیواری کی اینٹیں لوگوں نے اٹھا لیں۔ بات یہیں تک آکر ختم نہیں ہوئی بلکہ لائیبریری کا وجود ختم کرنے کے لئے جدی پشتی قبضہ گروپوں نے بھی متحرک ہوکر قبضہ کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ لائبریری جو کہ کتب کا گھر سمجھاجاتا ہے، جہاں سے علم ودانش کی خوشبوئیں اور مہک معاشرے کو معطر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں وہیں پر مقامی لوگوں نے کوڑا کرکٹ پھینکنے کیساتھ ساتھ لائبیری کے کمروں میں قبضہ کرنے کی نیت سے لکڑیاںاور بالن وغیرہ پھینک کر ان کی تالہ بندی کی ہوئی ہے۔
اس معاملہ پروزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار،صوبائی وزیرتعلیم،چیف سیکرٹری پنجاب اور ڈائریکٹوریٹ پبلک لائبریریز پنجاب کو فوری نوٹس لینا چاہیئے کیونکہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے تعمیر ہونیوالی لائیبریری کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو قرارواقعی سزا فوری ملنی چاہیئے تاکہ آئندہ کوئی بھی علم اور کتاب دشمن لائبریری جیسی مقدس جگہ کو نقصان پہنچانے کا کبھی تصوربھی نہ کرسکے۔ارباب اختیار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مذکورہ لائیبریری کو جنگی بنیادوں پر فنکشنل کروانے کے لئے فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments