سیالکوٹ کا سانحہ


پاکستان کے عوام نہ ایک متحد قوم بن سکے اور نہ ہی اچھے مسلمان اور نہ اچھے انسان. سارے لوگ گروہوں, جتھوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں. اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ اور اپنے پیارے نبی پاکﷺ کے فرمودات اور حیات طیبہ سے کان اور آنکھیں بند کیے گمراہی کے راستے پر رواں دواں. سچ اور جھوٹ, کھرے اور کھوٹے کی پہچان سے بے نیاز ایک ہجوم کی طرح بے مقصد راستے پر بس چلے ہی جارہے ہیں. نہ منزل کا پتہ ہے اور نہ ہی اچھے برے کا شعور.
ہمارے راہنماء اور ارباب اختیار ہمیں جب اور جہاں چاہیں ہانک کر لے جاتے ہیں. کبھی ریاست بچانے کے نام پر اور کبھی تبدیلی کا چورن بیچ کر. بیچارے غلام ذہنیت رکھنے والے ایک ہجوم کی طرح اپنے آقاؤں کے پیچھے چل پڑتے ہیں. بغیر سوچے سمجھے اور نقصان کی پرواہ کیے بغیر.
بدقسمتی سے ہم نے بس اتنا ہی علم حاصل کر رکھا ہے. کہ رسول پاکﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو مارنے والا جنت میں جائے گا. مگر کبھی یہ جاننے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے. کہ جس کو مار رہے ہیں یا جلا رہے ہیں. وہ قصوروار ہے بھی یا نہیں. اس نے جرم کا ارتکاب کیا بھی ہے یا نہیں. ماضی میں قرآن پاک کے اوراق کی توہین کرنے والے ایک ایسے شخص کو تھانے سے نکال کر مار دیا گیا تھا. جو ذہنی طور پر معذور تھا. کیا ایسے شخص کو مارنا جائز تھا. جو پولیس کی تحویل میں بھی تھا اور ہوش اور حواس سے بیگانہ بھی.
 کبھی ہم نے مسلمان ہونے کے ناطے نبی پاکﷺ کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے. ہمارے حبیب پاکﷺ نے تو عفو اور درگزر کا واضع پیغام اپنی امت کو پہنچایا اور مخالفین کے ساتھ صلہ رحمی کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کی. کیا ہم جانتے ہیں. نبی پاکﷺ نے لوگوں کو دین اسلام کا عظیم فلسفہ پہنچانے کے لئے کتنی تکالیف اور مصائب برداشت کیے. ہم اپنے آپ کو حضور پاکﷺ کا غلام بھی کہتے ہیں. مگر ان کی تعلیمات سے روگردانی بھی کرتے ہیں. ہمیں اس بات کا پتہ ہونا چاہئے کہ کسی انسان کو ناحق قتل کرنے کی اسلام نے بڑی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے. توہین رسالت پر دستیاب قوانین کی موجودگی کے باوجود ایک جتھا بن کر کسی انسان کو تشدد اور بربریت کے ساتھ مار ڈالنا کتنا بڑا گناہ ہے.
بدقسمتی سے عام لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے. ڈنڈا بردار پورے شہر میں دندناتے پھرتے ہیں.جس کی گاڑی ہتھے چڑھی نذر آتش کر دی. کوئی پولیس والا قابو آیا اسے تشدد کا نشانہ بنا کر مار دیا. راستے, سڑکیں, چوک اور چوراہے بند کر دیے. فرانس کے سفیر کو نکالنے کے مسئلے پر جو ہنگامہ برپا کیا گیا وہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے. پنجاب کے بعض شہروں کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد کئی دن تک بند رہے. جس کی وجہ سے عوام کو بہت اذیت برداشت کرنی پڑی.
توہین رسالت صلعم پر لوگوں کا خون بہانے کے واقعات عرصہ دراز سے پیش آ رہے ہیں.سیالکوٹ میں پیش آنے والا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے. جس کی وجہ سے پاکستان جو پہلے ہی بحرانوں کی زد میں تھا, کے لیے ایک نئی مشکل پیدا کردی گئی ہے.
 جمعہ کے بابرکت دن ایک سری لنکن شہری کو بڑی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا. مقتول جو ایک سخت گیر منتظم کے طور پر جانا جاتا تھا. سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں پروڈکشن منیجر کی حیثیت سے تعینات تھا. مقتول فیکٹری کی پیدوار بڑھانے کے لیے جدید طریقے استعمال کرتا تھا. فیکٹری کے مالکان اس کے کام سے بہت خوش تھے. مگر ورکرز اس کی پالیسیوں سے سخت نالاں تھے. ہم پاکستانی ویسے بھی کام چور اور سست الوجود واقع ہوئے ہیں. دفاتر اور دیگر اداروں میں ڈسپلن کو فالو کرتے ہوئے ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے.
اگر اس واقعے کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس کے وقوع پذیر ہونے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں اول منیجر کا ملازمین کے ساتھ سخت رویہ, دوئم اس کی طرف سے پوسٹر اتارتے وقت ممکنہ طور پر توہین آمیز الفاظ کا استعمال جو اس سانحے کے رونما ہونے کا موجب بنا ہوگا. اصل صورت حال کا تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا. خبروں کے مطابق مقتول پر اتنا شدید تشدد کیا گیا کہ اس کے جسم کی تمام ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں.
ملک میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اور گروپ دین اسلام کی خدمت اور تبلیغ میں مصروف ہیں. اسی طرح بریلوی مکتبہ فکر نے ٹی ایل پی کو میدان میں اتار رکھا ہے. جو نبی پاکﷺ کی حرمت اور ناموس کی حفاظت کی دعوے دار ہے. اس تنظیم نے اپنے قیام کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آگے ہی بڑھتی جا رہی ہے. اب تک ٹی ایل پی تین کامیاب دھرنے دے چکی ہے. تینوں دفعہ ریاست کو اس کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرنی پڑی. ٹی ایل پی کے قائدین بالخصوص مفتی منیب الرحمن اور دوسرے جید علماء کو اپنے کارکنوں کی فکری تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے. کارکنوں کو اسلام کے بنیادی فلسفے اور امن کے ہیغام سے روشناس کراتے ہوئے ان کو تشدد سے باز رہنے کی تاکید کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے.
 سیالکوٹ کے واقعے نے نہ صرف ملک کی بدنامی کا سامان پیدا کیا. بلکہ اسلام کے مثبت تشخص کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے. حسب معمول صدر مملکت اور وزیراعظم مذمتی بیان جاری کررہے ہیں. عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب وضاحتیں پیش کرنے میں مصروف ہیں. جو پھرتیاں ریاست کی طرف سے اب دکھائی جارہی ہیں. اگر معاملے کا بروقت ایکشن لیا جاتا تو اس انہونی کو روکا جاسکتا تھا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments